قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
آپ ان سے کہئے کہ :’’میرا پروردگار اپنے بندوں میں جس کے لئے چاہے رزق فراخ کردیتا [٥٩] ہے اور جس کے لئے چاہے کم کردیتا ہے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو تو وہی اس کی جگہ تمہیں اور دے دیتا [٦٠] ہے اور وہی سب سے بہتر رازق [٦١] ہے‘‘
[ ٥٩] یعنی رزق کی فراخی نہ اللہ کی رضا کا معیار ہے نہ انسان کی اپنی فلاح کا۔ بلکہ رزق کا تعلق صرف مشیت الٰہی سے ہے۔ جس میں اس کی اپنی کئی حکمتیں مضمر ہیں۔ بسا اوقات وہ ظالموں کو زیادہ رزق دے کر انہیں عذاب شدید کا مستحق بنا دیتا ہے۔ اور بعض دفعہ اپنے فرمانبرداروں کو فقر و فاقہ میں مبتلا کرکے ان کے درجات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ دولت بذات خود ایک ڈھلتی چھاؤں ہے۔ ایک ہی آدمی کے پاس کبھی زیادہ آجاتی ہے پھر اسی سے چھن بھی جاتی ہے۔ پھر جب مال و دولت میں ہی استقرارو استقلال نہیں تو پھر اسے خیر و شر کا معیار کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔؟ [ ٦٠] اللہ کی راہ میں خرچ کرنےسے رزق زیادہ ہوتاہے :۔ اس جملہ میں صدقہ و خیرات کرنے والے لوگوں کے لئے ایک عظیم خوشخبری ہے اور ایک ایسی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ جو بارہا لوگوں کے تجربہ میں آچکی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اور اللہ کی رضا کے لئے خلوص نیت کے ساتھ انسان جو کچھ بھی خرچ کرتا ہے۔ اللہ اس کی جگہ اس خرچ کئے ہوئے مال جتنا یا اس سے زیادہ دے دیتا ہے وہ کس ذریعہ سے دیتا ہے اس کی کوئی مادی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے۔ تاہم ہمارا تجربہ اور ہمارا وجدان دونوں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور درج ذیل احادیث بھی اسی مضمون کی تائید و توثیق کرتی ہیں : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’اے آدم کے بیٹے! تو (دوسروں پر) خرچ کر۔ میں تجھ پر خرچ کروں گا‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب الصدقۃ فیھا۔۔) ٢۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہاایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہدایت فرمائی کہ روپیہ پیسہ ہتھیلی میں بند کرکے مت رکھو ورنہ اللہ بھی تمہارا رزق بند کرکے رکھے گا۔ بلکہ جہاں تک ہوسکے خیرات کرتی رہو۔ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب الصدقہ فیما استطاع) ٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندوں پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن صبح دو فرشتے نازل نہ ہوں۔ ان میں ایک یوں دعا کرتا ہے ’’یا اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل دے‘‘ اور دوسرا یوں دعا کرتا ہے ’’یا اللہ بخیل کا مال تباہ کردے‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب قولہ فاما من اعطی ٰ واتقی۔۔) ٤۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کا رزق کشادہ اور اس کی عمر دراز ہو وہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے‘‘(بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب من احب السبط فی الرزق) [ ٦١] اللہ تعالیٰ کی کئی صفات ایسی ہیں جو انسانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً حقیقی رازق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مگر ہر انسان اپنے بال بچوں کو رزق مہیا کرتا ہے۔ مالک اپنے ملازموں کو رزق عطا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب ایسی صورت ہو تو اللہ کے لئے کوئی مزید امتیازی صفت بھی استعمال ہوگی۔ گویا اگر انسان کسی کا رزاق ہوسکتا ہے تو اللہ خیر الرازقین ہے یعنی سب کو رزق دینے والا بھی ہے اور بہتر رزق دینے والا بھی ہے۔ اسی طرح اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے تو انسان بھی تخلیق و ایجاد کرتا ہے۔ اس نسبت سے انسان کو موجد اور خالق تو کہہ سکتے ہیں مگر احسن الخالقین اللہ تعالیٰ ہی ہے۔