وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ
تمہارے اموال اور اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جن سے تم ہمارے ہاں مقرب بن سکو [٥٥]۔ ہاں جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے (وہ مقرب بن سکتا ہے) یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے اعمال کا دگنا [٥٦] صلہ ملے گا اور وہ بالاخانوں میں امن و چین [٥٧] سے رہیں گے
[ ٥٥] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ مال اور اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جو اللہ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بن سکیں۔ بلکہ یہی چیزیں اکثر انسانوں کے لئے اللہ کے تقرب کے بجائے الٹا اس کے غضب اور غصہ کا سبب بن جاتی ہیں اور اسے لے ڈوبتی ہیں۔ اس کے بجائے اللہ کے ہاں تقرّب کا معیار ایمان اور اعمال صالحہ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان لائے اور اعمال صالحہ بھی لائے تو یہی مال اور اولاد اس کے لئے اللہ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ وہ یوں کہ اپنے مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے اور اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کرکے اسے اللہ کا فرمانبردار بنادے۔ [ ٥٦] ضِعُفَ (ضد نصف یعنی آدھا) یعنی کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور (مفردات القرآن) پھر یہی لفظ کئی گنا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور کتاب و سنت کی صراحت کے مطابق یہ دس گنا بھی ہوسکتا ہے۔ سات سو گنا بھی بلکہ اس سے زیادہ بھی۔ [ ٥٧] اس میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی ہے کہ ایماندار جنت کے ان بالاخانوں میں دائمی اور ابدی طور پر قیام پذیر رہیں گے۔ کیونکہ اگر ٹھکانہ عارضی ہو تو انسان کو امن و چین اور اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا۔