قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
آپ ان سے کہئے کہ : رزق تو میرا پروردگار جس کے لئے چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہے کم بھی کردیتا ہے لیکن اکثر لوگ (یہ بات) جانتے [٥٤] نہیں
[ ٥٤] مال ودولت کی فراوانی اللہ کی رضا کی دلیل نہیں:۔وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ رزق کی کمی بیشی کا معاملہ تو اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتا ہے، اس کی رضا سے تعلق نہیں رکھتا۔ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں اپنے نافرمانوں اور فرمانبرداروں سب کو رزق دے۔ اسی صورت میں اس دنیا میں انسان کی آزمائش ہوسکتی ہے۔ اگر وہ اس دنیا میں نافرمانوں کو رزق نہ دے یا ان پر رزق تنگ کردے اور اپنے فرمانبرداروں کو ہی رزق دے یا انھیں وافر رزق عطا کرنے لگے۔ تو پھر تو ہر ایک ایمان لے آئے گا اس میں انسانوں کی آزمائش کی کیا گنجائش رہ گئی؟ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات ظالموں، چوروں، ڈاکوؤں، خائنوں، مکاروں اور فریب کاروں کو وافر رزق عطا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان صفات کو اور ایسی صفات رکھنے والے لوگوں کو کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ پھر بسا اوقات یوں بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ شریف لوگ سچ بولنے والے، عہد کے پابند، کسی کو ہاتھ یا زبان سے تکلیف نہ پہنچانے والے اور اللہ کے فرمانبردار اور عبادت گزار لوگ فقر و فاقہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان صفات کو اور ایسی صفات رکھنے والے انسانوں کو سب ہی اچھا سمجھتے ہیں۔ پھر قسم اول کے لوگوں کی آسودگی کو اور قسم دوم کے لوگوں کی تنگی کو اللہ کی رضا کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ جبکہ زبان خلق بھی اس بات کی تردید کر رہی ہے۔