قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ
(اے نبی!) آپ ان سے کہئے کہ : جن کو تم اللہ کے سوا (الٰہ) سمجھ رہے ہو انھیں پکار کر دیکھ لو۔ وہ تو آسمانوں اور زمین کے موجودات میں ذرہ بھر بھی اختیار نہیں رکھتے، نہ ہی ان موجودات میں ان کی کچھ شرکت ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے
[ ٣٦] یعنی ان کفار مکہ سے کہئے کہ میرا پروردگار وہ ہے جو کائنات کی ہر چیز کا خالق ہے جو اس کا شکر ادا کرتا ہے اسے وہ نعمتوں سے نوازتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے شاکر بندے تھے تو اللہ نے انھیں بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ اور قوم ”سبا “نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ اب تم بتلاؤ کہ جن معبودوں کو تم پکارتے ہو ان میں سے کوئی ایسا کام کرسکتا ہے؟ اگر تمہیں کچھ شک ہے تو انھیں پکار کے دیکھ لو کہ کیا وہ آڑے وقت کسی کے کام آسکتے ہیں؟ اس بات کو اس پہلو سے بھی سمجھو کہ کائنات میں کسی بھی چیز پر ان کا کچھ اختیار ہے؟ نہ انہوں نے کسی چیز کو بنایا ہے، نہ ہی کسی چیز کی تخلیق میں ان کی شرکت ہے۔ نہ ہی ان کا ظاہری اور باطنی اسباب پر کچھ کنٹرول ہے پھر وہ تمہاری بگڑی کو سنوار کیسے سکتے ہیں اور فائدہ کیا پہنچا سکتے ہیں؟ فائدہ یا نقصان تو وہی ہستی پہنچا سکتی ہے جس کے پاس کچھ ایسے اختیارات بھی ہوں۔ اور جو چیز خود بے اختیار اور مجبور محض ہے اس سے نفع یا نقصان کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے؟