يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا
اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں [١٠٧] نے موسیٰ کو اذیت پہنچائی تھی۔ پھر اللہ نے موسیٰ کو ان کی بنائی ہوئی باتوں سے بری کردیا اور وہ اللہ کے ہاں بڑی عزت [١٠٨] والے تھے۔
[١٠٧] اس آیت کی تائید و توثیق درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حنین کی جنگ کا) مال غنیمت تقسیم کیا تو ایک شخص کہنے لگا : اس تقسیم سے اللہ کی رضامندی مقصود نہیں ہے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انھیں یہ بات بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر غصہ کے اثرات نمودار ہوئے اور فرمایا : اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے انھیں اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعطی المؤلفۃ قلوبھم وغیرھم من الخمس ونحوہ) اور درج ذیل حدیث اس آیت کی تفسیر پیش کرتی ہے : بنی اسرائیل کی موسیٰ علیہ السلام کو ایذا رسانی :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل برہنہ غسل کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام تنہا غسل فرمایا کرتے۔ بنی اسرائیل کہنے لگے۔ واللہ موسیٰ کو ہمارے ساتھ غسل کرنے سے بجز اس کے اور کوئی بات مانع نہیں کہ وہ فتق (جلدی بیماری) میں مبتلا ہیں۔ اتفاق سے ایک دن موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے تو اپنا لباس ایک پتھر پر رکھ دیا وہ پتھر ان کا لباس لے بھاگا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس کے تعاقب میں یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ ثوبی یا حجر۔ ثوبی یا حجر (اے پتھر! میرے کپڑے۔ اے پتھر! میرے کپڑے) یہاں تک بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو (ننگے) دیکھ لیا اور کہنے لگے : واللہ! موسیٰ علیہ السلام کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ (پتھر ٹھہر گیا) موسیٰ علیہ السلام نے اپنا لباس لے لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : خدا کی قسم اس پتھر پر چھ یا سات نشان ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الغسل۔ باب من اغتسل عریاناً) اب ظاہر ہے کہ جو لوگ خرق عادت واقعات یا معجزات کے منکر ہیں۔ انھیں یہ تفسیر راس نہیں آسکتی۔ تاہم اس حدیث کے الفاظ میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ وہ بھی اسے تسلیم کرلیں وہ یوں کہ حجر کے معنی پتھر بھی ہیں اور گھوڑی بھی۔ (منجد) اس لحاظ سے یہ واقعہ یوں ہوگا کہ موسیٰ گھوڑی پر سوار تھے۔ کسی تنہائی کے مقام پر نہانے لگے تو گھوڑی کو کھڑا کیا اور اسی پر اپنے کپڑے رکھ دیئے۔ جب نہانے کے بعد کپڑے لینے کے لئے آگے بڑھے تو گھوڑی دوڑ پڑی اور موسیٰ علیہ السلام ثوبی یا حجر کہتے اس کے پیچھے دوڑے تاآنکہ کچھ لوگوں نے آپ کو ننگے بدن دیکھ لیا کہ آپ بالکل بےداغ اور ان کی مزعومہ بیماری سے پاک ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو ان لوگوں کے الزام سے بری کردیا۔ رہی یہ بات کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ قسم اٹھاکر کہتے ہیں کہ پتھر پر مار کے چھ یا سات نشان ہیں تو یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جس کا ماننا حجت ہو۔ علاوہ ازیں قارون نے بھی ایک فاحشہ عورت کو کچھ دے دلا کر اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر اپنے ساتھ زناکی تہمت لگا دے۔ پھر جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اسے اللہ کی قسم دے کر پوچھا تو اس پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ اس نے صاف انکار کرلیا کہ میں نے قارون کی انگیخت پر یہ تہمت لگائی تھی۔ اور بنی اسرائیل کا موسیٰ علیہ السلام کو اس طرح دکھ پہنچانا اس لحاظ سے اور بھی شدید جرم بن جاتا ہے کہ آپ ہی کے ذریعہ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ اور ان کی مصر میں وہی حالت تھی جو ہندوستان میں شودروں کی ہے۔ بلکہ اس سے بھی بدتر حالت میں وہاں زندگی گزار رہے تھے۔ [١٠٨] وَجِیْھًا کا دوسرا معنی ایسا آبرو اور رعب والا شخص ہے جس کے متعلق لوگوں کو کچھ اعتراض ہو بھی تو وہ اس کے منہ پر کچھ نہ کہہ سکیں اور ادھر ادھر باتیں کرتے پھریں۔ یہی لفظ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ کے لئے استعمال فرمایا اور کہا ﴿وَجِیْھًا فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ﴾ (٣: ٤٥) یعنی عیسیٰ دنیا میں بھی وجیہ تھے اور آخرت میں بھی وجیہ ہوں گے۔ چنانچہ دنیا میں یہود ان کی پیدائش سے متعلق الزام لگاتے تھے لیکن منہ پر بات کہنے کی کوئی جرات نہ کرتا تھا۔ اس آیت میں روئے سخن غالباً منافقوں کی طرف ہے جو مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے۔ ورنہ مخلص مومنوں سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ اپنے مجبوب اور محسن اعظم کو دکھ پہنچائیں۔