لَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ۗ وَاتَّقِينَ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
ان (ازواج نبی) پر کچھ گناہ نہیں اگر ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی ' ان کے بھیتجے، ان کے بھانجے، ان کی میل جول کی عورتیں [٩٤] اور ان کے لونڈی غلام، ان کے گھروں میں داخل ہوں۔ اور (اے عورتو!) اللہ سے ڈرتی رہو۔ اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز [٩٥] پر حاضر و ناظر ہے۔
[٩٤] کون کون سے رشتہ دار محرم ہیں؟۔ اس آیت میں ان محرم رشتہ داروں کا ذکر ہے۔ جو نبی کے گھر میں آجاسکتے ہیں اور ان سے پردہ کی ضرورت نہیں۔ یا لونڈی غلام وغیرہ اور ان کی تفصیل پہلے سورۃ نور کی آیت ٣١ کے حواشی کے تحت گزر چکی ہے۔ پھر ان میں رضاعی رشتے بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پردہ کا حکم اترنے کے بعد ابو القُعَیْس کے بھائی افلح نے (جو میرے رضاعی چچا تھے) مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ میں نے جواب دیا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر اجازت نہیں دے سکتی۔ کیونکہ افلح کے بھائی ابو القعیس نے تو مجھے دودھ نہیں پلایا تھا بلکہ اس کی بیوی نے پلایا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ابو القعیس کے بھائی افلح نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تھی تو میں نے اسے کہا کہ جب تک آپ سے پوچھ نہ لوں اجازت نہیں دے سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم نے اپنے چچا کو اجازت کیوں نہ دی؟‘‘ میں نے عرض کیا :’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے دودھ مرد نے تو نہیں پلایا وہ تو ابو القعیس کی بیوی نے پلایا تھا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ اسے اندر آنے کی اجازت دو، وہ تمہارا چچا ہے‘‘ عروہ بن زبیر (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے) کہتے ہیں کہ اسی لئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ ’’جتنے رشتے خون کی وجہ سے حرام سمجھتے ہو دودھ کی وجہ سے بھی وہ حرام ہیں‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [٩٥] یعنی اللہ یہ چیز دیکھ رہا ہے کہ جو احکام تمہیں پردہ سے متعلق دیئے جارہے ہیں۔ اللہ سے ڈر کر ان پر کس قدر عمل پیرا ہوتی ہو۔