يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انھیں چھونے سے پیشتر طلاق دے دو تو تمہارے لئے ان [٧٧] پر کوئی عدت نہیں جس کے پورا ہونے کا تم مطالبہ کرسکو۔ لہٰذا (اسی وقت) انھیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقہ سے رخصت کردو۔
[ ٧٧] طلاق دینے والے کو ہدایات :۔ اس آیت میں چند امور قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ اگرچہ آیت میں مومن عورتوں سے نکاح کا ذکر ہے۔ تاہم اگر نکاح کتابیہ عورت سے ہو تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوگا۔ دوسرا یہ کہ صحبت سے پیشتر طلاق دینے سے بھی نصف حق مہر ادا کرنا واجب ہے۔ بشرطیکہ حق مہر طے ہوچکا ہو۔ (٢: ٢٣٧) تیسرا یہ کہ اگر حق مہر مقرر ہی نہ کیا گیا ہو تو پھر کچھ نہیں دینا ہوگا۔ البتہ دونوں صورتوں میں عورت کو کچھ نہ کچھ دے دلا کر رخصت کرنا چاہئے۔ اور اس کچھ نہ کچھ کی مقدار طلاق دینے والے کی مالی حیثیت کے لحاظ سے ہوگی۔ چوتھا یہ کہ اگر عورت کو طلاق ہی دینا ہے تو پھر اس پر کوئی الزام نہ لگانا چاہئے۔ نہ ہی اسے بدنام کرکے گھر سے نکالنا چاہئے جو اس کی آئندہ زندگی پر ناخوشگوار اثر ڈالے۔ بھلے طریقہ سے رخصت کرنے کا یہی مطلب ہے اور پانچواں اور سب سے اہم امر یہ ہے کہ عدت کے دوران بھی مطلقہ عورت اپنے خاوند کی بیوی ہی رہتی ہے۔ اور یہ مرد کا عورت پر حق ہے۔ اس دوران مرد رجوع کا حق بھی رکھتا ہے اور اس میں زبردستی بھی کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس دوران حمل معلوم ہوجائے۔ تو بچہ بھی طلاق دینے والے مرد کا ہوگا۔ اور وہ اس کا وارث بھی ہوگا۔ صحبت سے پہلے طلاق دینے میں چونکہ حمل وغیرہ کا احتمال ہی نہیں ہوتا لہٰذا غیر مدخولہ عورت پر کوئی عدت نہیں۔ وہ اگر چاہے تو طلاق کے فوراً بعد نکاح کرسکتی ہے۔ ہمارے ہاں عموماً یہ رواج ہے کہ نکاح کے ساتھ ہی رخصتی ہوجاتی ہے اور اسے شادی کہتے ہیں۔ تاہم یہ رواج پایا جاتا ہے کہ پہلے نکاح ہوجاتا ہے مثلاً بچپن میں والدین نے نکاح کردیا اور رخصتی یا شادی کچھ مدت کے بعد یا زوجین کے جوان ہونے کے بعد ہوتی ہے۔ اس آیت میں مذکورہ صورت کا احتمال دوسری شکل میں ہی پایا جاتا ہے اور عرب میں یہ عام رواج تھا کہ نکاح پہلے ہوجاتا تھا اور رخصتی بعد میں ہوتی تھی۔ احناف نے خلوت صحیحہ کو بھی صحبت ہی کے مترادف قرار دیا ہے اور یہ ایسی بات ہے جس کی دلیل یا مثال کتاب و سنت میں نہیں ملتی۔