وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ کر دے تو ان کے لئے اپنے معاملہ میں کچھ اختیار باقی رہ جائے اور جو اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی [٥٥] کرے تو وہ یقیناً صریح گمراہی میں جا پڑا۔
[ ٥٥] آزاد شدہ غلاموں کا معاشرہ میں مقام :۔ اس سورۃ کے آغاز میں پہلے بتایا جاچکا ہے کہ عرب معاشرہ میں کثیر تعداد غلاموں کی تھی۔ اور غلاموں کو ایک حقیر اور دوسرے درجہ کی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی غلام آزاد کردیا جاتا، جسے مولیٰ کہا جاتا تھا، تو بھی آزاد لوگوں کا معاشرہ اسے اپنے آپ میں جذب کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔ اسلام اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کرنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ اس اصلاح کا آغاز نبی کی ذات اور اس کے گھرانہ سے کیا جائے۔ سیدہ زینب کا اللہ اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام زید بن حارثہ تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرنے کے بعد اسے اپنا متبنّیٰ بھی بنا لیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود آزاد لوگ اسے معاشرتی لحاظ سے اپنے برابر کا درجہ دینے کو تیار نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب کا رشتہ طلب کیا۔ تو ان لوگوں کو یہ بات توہین آمیز معلوم ہوئی اور سخت ناگوار گزری۔ اسی وجہ سے ان لوگوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ مگر اللہ کو منظور تھا کہ یہ کام ضرور ہونا چاہئے۔ اسی ضمن میں یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت سیدہ زینب بنت جحش کو سنائی تو انہوں نے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور یہ رشتہ قبول کرلیا۔ اور سیدنا زید کا زینب بنت جحش سے نکاح ہوگیا۔