يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح [٤٥] نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو (کسی نامحرم سے) دبی زبان [٤٦] سے بات نہ کرو، ورنہ جس شخص کے دل میں روگ ہے وہ کوئی غلط توقع لگا بیٹھے گا لہٰذا صاف سیدھی بات کرو
[ ٤٥] معاشرہ سے فحاشی کے خاتمہ کے لئے احکام :۔ سابقہ دو آیات سے دراصل معاشرہ سے فواحش کی تطہیر کا پروگرام دیا جا رہا ہے۔ اس کے آغاز میں دو باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ایک تو اس کا آغاز نبی کے گھرانہ سے کیا گیا۔ دوسرے سب سے پہلے فاحشہ مبینہ (یعنی زنا) کا ذکر کردیاض2ص2 گیا۔ اس کے بعد اب زنا کے سدباب کے احکام کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے اور اس میں پہلے یہ خاص طور پر وضاحت کردی گئی کہ تمہارا معاملہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے۔ بلکہ تمہارے کردار کے نتائج بڑے دور رس ہیں۔ لہٰذا تمہیں پوری طرح ان احکام پر عمل کرنا ہوگا۔ تمہارے ہر عمل کو لوگ حجت سمجھیں گے اور بطور حجت ہی پیش کریں گے۔ [ ٤٦] آواز پر پابندی :۔ جنگ احزاب سے پہلے تک عرب معاشرہ کا یہ حال تھا کہ مسلمان عورتیں بھی اپنی پوری زینت اور میک اپ کے ساتھ بے حجاب پھرتی تھیں۔ مسلم گھرانوں میں بھی غیر مردوں کے داخلہ پر کوئی پابندی نہ تھی۔ ازواج مطہرات بھی اسی طرح گھروں سے باہر جایا آیا کرتی تھیں۔ جیسے دوسری عورتیں، اس بے حجابانہ معاشرہ کی اصلاح کے لئے سب سے پہلے غیر مرد اور غیر عورت کی باہمی گفتگو اور آواز پر پابندی لگائی گئی اور اس حکم میں مخاطب نبی کی بیویوں کو بالخصوص اس لئے کیا گیا کہ ان سے بھی لوگوں کو مسئلے مسائل پوچھنے کی ضرورت پیش آتی رہتی تھی۔ چنانچہ انھیں حکم دیا گیا کہ ان کی آواز شیریں اور لوچدار ہونے کی بجائے روکھی اور معقول حد تک بلند ہونا چاہئے۔ دبی زبان میں ہرگز بات نہ کی جائے۔ جو نرم گوشہ لئے ہوئے ہو۔ لوچدار اور شیریں آواز بذات خود دل کا ایک مرضی اللہ عنہ ہے۔ پھر اگر مخاطب کے دل میں پہلے سے ہی اس قسم کا روگ موجود ہو تو وہ صرف اسی لذیذ گفتگو سے کئی غلط قسم کے خیالات اور تصورات دل میں جمانا شروع کردے گا اگرچہ ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ تاہم یہ حکم عام ہے۔ اور عورت کی آواز پر اصل پابندی یہ ہے کہ غیر مرد اس کی آواز نہ سننے پائیں۔ نیز اس کی آواز میں نرمی، لوچ، بانکپن اور شیرینی نہ ہونی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت اذان نہیں کہہ سکتی یا نماز باجماعت میں اگر امام غلطی کر جائے تو وہ نہ سبحان اللہ کہہ سکتی ہے اور نہ لقمہ دے سکتی ہے۔ بلکہ اس کے لئے تصفیق کا حکم ہے یعنی اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنے سے متنبہ کرے۔