وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا
اور اہل کتاب [٣٦] میں سے جنہوں نے کافروں کی مدد کی تھی انھیں اللہ تعالیٰ ان کے قلعوں [٣٧] سے اتار لایا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال [٣٨] دیا کہ ان کے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے تھے اور دوسرے کو قیدی [٣٩] بنا رہے تھے۔
[ ٣٦] یہ یہود بنو قریظہ تھے جو مسلمانوں کے معاہد تھے۔ بنو قینقاع اور بنی نضیر کی جلاوطنی کے بعد مدینہ میں یہود کا یہی قبیلہ باقی رہ گیا تھا۔ کیونکہ یہ قبیلہ دوسروں کی نسبت قدرے شریف اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والا تھا۔ جب بنو نضیر کو خیبر کی طرف جلا وطن کردیا گیا اور جنگ احزاب کی تیاریاں شروع ہوگئیں تو بنونضیر کا رئیس حیی بن اخطب رات کی تاریکیوں میں بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا۔ کعب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ حیی مجھے مسلمانوں سے عہد شکنی پر آمادہ کرنے کے لئے آیا ہے۔ لہٰذا اس نے دروازہ ہی نہ کھولا۔ حیی نے اس سے کچھ چکنی چپڑی باتیں کیں تو آخر اس نے دروازہ کھول دیا۔ حیی کہنے لگا :’’کعب! میں تمہارے پاس زمانے کی عزت اور چڑھتا ہوا سمندر لے کر آیا ہوں۔ ان لوگوں نے مجھ سے عہدو پیمان کیا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کا صفایا کئے بغیر یہاں سے نہ ٹلیں گے‘‘ اس کے جواب میں جو کچھ کعب نے کہا : وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ اس نے کہا : ’’حیی! واللہ تم میرے پاس زمانے کی ذلت اور برسا ہوا بادل لے کر آئے ہو جو صرف گرج چمک رہا ہے۔ تم پر افسوس۔ تم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صدق و صفا کے سوا کچھ نہیں دیکھا‘‘ (ابن ہشام ٢: ٢٢٠' ٢٢١) مگر حیی نے کعب کو سبز باغ دکھا دکھا کر با لآخر بدعہدی پر مجبور کر ہی لیا وہ کہنے لگا : اگر قریش محمد کا خاتمہ کئے بغیر ہی واپس چلے گئے تو میں بھی تمہارے ساتھ قلعہ بند ہوجاؤں گا اور واپس نہیں جاؤں گا پھر جو انجام تمہارا ہوگا وہی میرا ہوگا۔ اس شرط پر کعب بھی اتحادیوں میں شامل ہوگیا۔ مدینہ میں اندرونی خطرات :۔ اس صورت حال کی تحقیق کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے سرداروں (سعد بن عبادہ، سعد بن معاذ، عبداللہ بن رواحہ اور خوّات بن جبیررضی اللہ عنہم کو تحقیق حال کے لئے بھیجا اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کردی کہ اگر بنوقریظہ کی بدعہدی کی خبر درست ہو تو دوسروں کی موجودگی میں مجھے نہ بتائیں بلکہ صرف اشارہ سے کام چلا لیں۔ جب انہوں نے واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ سے بتایا کہ یہ خبر درست ہے تو اس سے آپ کو سخت صدمہ ہوا۔ اس خبر کے اخفاء کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ مسلمان کم از کم مدینہ کی اندرونی حفاظت کی طرف سے مطمئن تھے مگر اس صورت حال سے مدینہ کے اندر بھی خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ خندق) [ ٣٧] بنو قریظہ کا محاصرہ :۔ تقریباً ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد جب اتحادی لشکر بھاگ نکلا تو اب بنوقریظہ کو ان کی عہد شکنی کی سزا دینے کا وقت بھی آن پہنچا۔ جنگ خندق سے فراغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں غسل فرما رہے تھے کہ جبرئیل آئے اور کہا کہ ’’آپ نے ہتھیار اتار دیئے ہیں حالانکہ فرشتوں نے ابھی تک نہیں اتارے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت منادی کرا دی کہ مجاہدین عصر کی نماز بنوقریظہ کے ہاں جاکر ادا کریں۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرجع النبی من الاحزاب الٰی بنی قریظة ومحاصرتہ ایاھم) چنانچہ چند گھنٹوں کے اندر اندر تین ہزار مسلح مجاہدین نے بنوقریظہ کے ہاں پہنچ کر ان کا محاصرہ کرلیا۔ بنو قریظہ قلعہ بند ہوگئے (حیی بن اخطب بھی حسب وعدہ ان کے ساتھ قلعہ بند ہوا تھا) ان کے سردار کعب بن اسد نے قوم کے سامنے تین تجاویز رکھیں : یہود کی سپر اندازی :۔ ١۔ اسلام قبول کرلو۔ اس صورت میں تمہارا مال و جان سب کچھ محفوظ رہے گا اور تم پر یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ یہ وہی نبی برحق ہے جس کی بشارت تم اپنی کتاب میں پاتے ہو۔ ٢۔ اپنے بیوی بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کر دو۔ پھر خود مردانہ وار لڑائی لڑو۔ پھر مرجاؤ یا فتح پاؤ۔ ٣۔ یا پھر مکروفریب کی راہ اختیار کرو۔ مسلمانوں پر ہفتہ کے دن حملہ کر دو۔ کیونکہ انھیں اطمینان ہوگا کہ آج لڑائی نہیں ہوگی۔ مگر بنو قریظہ نے اپنے سردار کی ایک تجویز بھی نہ مانی تو وہ جھنجھلا کر کہنے لگا : تم میں سے کسی نے آج تک ایک رات بھی ہوشمندی کے ساتھ نہیں گزاری۔ (الرحیق المختوم۔ اردو ص ٤٩٤) اب ان کے سامنے بس ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔ [ ٣٨] یہود کا سیدنا سعد بن معاذ کو حکم تسلیم کرنا :۔ بدعہدی اور عہد شکنی قوم کو انتہا درجہ کا بزدل بنا دیتی ہے۔ ان کے پاس وافر مقدار میں راشن موجود تھا اور انہوں نے مسلمانوں کے استیصال کے لئے ڈیڑھ ہزار تلواریں، دو ہزار نیزے تین سو زرہیں اور پانچ سو ڈھالیں بھی تیار کر رکھی تھیں۔ مگر وقت پر کوئی چیز بھی ان کے کام نہ آئی۔ انہوں نے صرف ٢٥ دن کے محاصرہ کے بعد اس شرط پر ہتھیار ڈال دیئے کہ ان کے حق میں جو بھی فیصلہ ان کے حلیف سیدنا سعد بن معاذ کریں گے وہ انھیں منظور ہوگا۔ ان کے پاس قلعہ میں جس قدر راشن موجود تھا اگر وہ چاہتے تو سال بھر قلعہ بند رہ کر آسانی سے گزر بسر کرسکتے تھے مگر ان کے مجرم ضمیر نے انھیں جلد ہی بے چین کردیا اور اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی۔ [ ٣٩] بنو قریظہ کا انجام :۔ سیدنا سعد بن معاذ کو جنگ احزاب میں ایک کاری زخم لگا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جنگ خندق میں سعد بن معاذ کو ہفت اندام کی رگ میں تیر لگ گیا تو آپ نے مسجد میں ہی ان کے لئے خیمہ لگا دیا۔ تاکہ قریب سے عیادت کرسکیں۔ مسجد میں بنو غفار کا خیمہ بھی تھا۔ جب (سیدنا معاذ کا) خون بہہ بہہ کر ان کے خیمہ کی طرف آنے لگا تو وہ ڈر گئے، کہنے لگے : اے خیمہ والو! یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے بہہ کر ہمارے پاس آرہا ہے۔ دیکھا تو سعد کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ آخر اسی زخم سے وہ چل بسے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الخیمۃ فی المسجد للمرضی وغیرھم) لہٰذا وہ غزوہ بنوقریظہ میں شامل نہ ہوسکے۔ فیصلہ کے لئے انھیں گدھے پر سوار کرکے موقعہ پر لایا گیا تو آپ نے اپنے عہد شکن حلیف کی کوئی رو رعایت نہیں کی۔ اور یہ فیصلہ دیا کہ : ’’(ا) سب مردوں کو قتل کردیا جائے (٢) عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے، (٣) ان کے اموال مجاہدین میں تقسیم کردیئے جائیں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا : ’’تم نے وہی فیصلہ کیا جو سات آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرجع النبی من الاحزاب الیٰ بنی قریظۃ ومحاصرتہ ایاھم) چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق چھ سو سے کچھ زائد مردان جنگی کو قتل کردیا گیا اور ان مقتولین میں حیی بن اخطب بھی تھا۔ جس نے بنوقریظہ کو عہد شکنی پر مجبور کرکے ان پر یہ مصیبت ڈھائی تھی۔ یہ مقتولین صرف اس بنا پر قتل نہیں کئے گئے کہ وہ جنگی قیدی تھے بلکہ ان کے جرائم اور بھی تھے مثلاً : (١) تجدید معاہدہ کے باوجود انہوں نے نہایت نازک موقعہ پر عہد شکنی کرکے مسلمانوں کو اندرونی خطرات سے دوچار کردیا تھا۔ (٢) انہوں نے مردانہ وار سامنے آنے کی بجائے عورتوں اور بچوں کے قلعوں پر حملہ کی کوشش کی تھی۔ (٣) جنگ احزاب کے بعد بھی حیی بن اخطب کو ساتھ ملا کر مدینہ میں اشتعال انگیزی شروع کردی تھی اور بجائے اس کے کہ اپنی عہد شکنی پر پشیمان ہوتے، انہوں نے مقابلہ کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔