وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا
اور کفار (کے لشکروں) کو اللہ تعالیٰ نے بے نیل ومرام اپنے دلوں کی جلن دلوں میں ہی لئے واپس لوٹا [٣٤] دیا اور لڑائی کے لئے مومنوں کی طرف سے اللہ ہی کافی ہوگیا وہ یقیناً بڑی قوت والا اور زبردست [٣٥] ہے۔
[ ٣٤] عبد ودّ کی لاش کا عوضانہ :۔ یعنی اتحادیوں کا لشکر نہایت ذلت، ناکامی اور غصہ سے پیچ و تاب کھاتا ہوا بے نیل و مرام میدان چھوڑ کر واپسی پر مجبور ہوگیا اور مسلمانوں کے لئے اپنا بہت سامان چھوڑ گیا۔ اسی جنگ میں عمرو بن عبدودّ نے، جو ایک ہزار سواروں پر بھاری سمجھا جاتا تھا، مسلمانوں کو دعوت مبارزت دی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے مقابلے میں اترے اور اس کا کام تمام کردیا۔ مشرکوں نے درخواست کی کہ دس ہزار درہم کے عوض اس کی لاش انھیں دے دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا : لاش تم مفت ہی لے جاو ہم مردوں کی قیمت نہیں کھایا کرتے۔ [ ٣٥] حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کو کیسے بد عہدی پر آمادہ کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے عام لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور ان کے محاصرہ کو اٹھانے کے لئے یخ بستہ ہوا اور فرشتے بھیج دیئے۔ یہود میں اور اتحادیوں میں پھوٹ ڈال دی۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن سخت بدحواس ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بھلا اللہ کی زبردست قوت کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے؟