لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ [٢٩] ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو [٣٠] اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔
[ ٢٩] جنگ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار۔ آپ سب مسلمانوں کے لئے واجب الاتباع نمونہ ہیں :۔ جنگ کی سب سے زیادہ ذمہ داری سپہ سالار پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے سپہ سالار خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ دشمن کی کثرت تعداد، خوراک کی شدید قلت، حالات کی سنگینی اس نبی کے پائے ثبات پر ذرہ بھر بھی لغزش پیدا نہیں کرسکی۔ وہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھنے اور اللہ کی طرف سے پرامید اور اس کی مدد کے منتظر ہیں۔ مگر ساتھ ساتھ پوری جانفشانی سے تمہارے دوش بدوش جنگ کے ایک ایک کام تمہارے ساتھ مل کر کر رہے ہیں۔ مسلمانو! تمہارا کردار بھی ایسا ہی ہونا چاہئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو بطور نمونہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس جملہ کا یہی مطلب ہے مگر یہ حکم عام ہے صرف جنگ میں ہی نہیں بلکہ ہر حالت میں اور صرف جنگی احکام و تدابیر میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں رسول کی ذات کو بطور نمونہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ گویا اس ایک مختصر سے جملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع دونوں کو تمام مسلمانوں پر لازم اور واجب قرار دیا گیا ہے۔ [ ٣٠] کس طرح کے لوگ آپ کی اتباع نہیں کرتے؟:۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا کہ رسول کی اتباع صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن میں تین شرائط پائی جاتی ہوں ایک یہ کہ وہ اللہ پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہوں، دوسرے یوم آخرت پر ایمان بھی رکھتے ہوں اور اپنے اعمال کے اچھے بدلہ کی اللہ سے امید بھی رکھتے ہوں اور ہر وقت اللہ کو یاد رکھتے ہوں۔ بالفاظ دیگر جو لوگ رسول کی ذات کو اپنے لئے نمونہ نہیں بناتے یا اس کے کسی قول یا عمل سے انحراف کرتے ہیں یا اس کی اطاعت و اتباع کو لازم و واجب نہیں سمجھتے فی الحقیقت نہ ان کا اللہ پر ایمان ہے اور نہ یوم آخرت پر۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مشروط اطاعت اور اتباع کے وجوب پر صریح اور قوی دلیل ہے۔