وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا
جبکہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا یہ کہہ رہے تھے کہ : اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ [١٥] کیا تھا وہ بس دھوکا ہی تھا
[ ١٥] منافقوں کے مسلمانوں کو طعنے :۔ جب بنو قریظہ بھی مسلمانوں سے بدعہدی پر آمادہ ہوگئے تو اب مسلمانوں کے لئے اندر اور باہر ہر طرف دشمن ہی دشمن تھے۔ اس تشویشناک صورت حال میں منافقوں نے مسلمانوں ہی کو یہ طعنے دینا شروع کردیئے کہ تم تو ہمیں یہ بتاتے تھے کہ ہمیں قیصر و کسریٰ کے خزانے ملیں گے اور یہاں یہ صورت حال ہے کہ رفع حاجت کو جانے میں بھی جان کی سلامتی نظر نہیں آتی۔ دراصل منافقوں کا خیال کچھ ایسا تھا کہ بس ان کے ایمان کا دعویٰ کرنے کی دیر ہے کہ آسمان سے فرشتے اتر پڑیں گے۔ اور ان کی تاج پوشی کی رسم ادا کریں گے۔ انھیں انگلی تک بھی ہلانے کی نوبت نہ آئے گی۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ ایمان لانے کے بعد انھیں سخت آزمائشوں کے دور سے گزرنا ہوگا۔ مصائب کے پہاڑ ان پر ٹوٹیں گے اور انھیں سردھڑ کی بازی لگانا پڑے گی۔ تب کہیں جاکر اللہ کی مدد آتی ہے۔ البتہ اس کے وعدہ کے مطابق آتی ضرور ہے۔