يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جب (کفار کے) لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے آندھی اور ایسے لشکر بھیج دیئے جو تمہیں [١٤] نظر نہ آتے تھے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔
[ ١٤] جنگ احزاب کے اصل محرک خیبر میں پناہ گزین یہودی تھے :۔ آیت نمبر ٩ سے لے کر آیت نمبر ٢٧ تک جنگ احزاب کا یا جنگ خندق کا بیان ہے۔ مگر اس میں تسلسل کا وہ انداز نہیں جو ایک انسان یا مورخ کے بیان یا اس کی تصنیف میں پایا جاتا ہے۔ وہ سب سے پہلے جنگ کے اسباب بیان کرے گا۔ پھر واقعات کی تفصیل بتائے گا پھر اس کے بعد اس کے نتائج پر تبصرہ کرے گا۔ لیکن قرآن کا انداز بیان اس سے بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ قرآن کا اصل موضوع انسان کی ہدایت اور مسلمانوں کی اخلاقی اور عملی تربیت ہے۔ لہٰذا اس مخصوص انداز بیان سے اس جنگ کے بیان کا آغاز کیا گیا ہے اور انھیں بتایا ہے کہ جب اللہ کے فرمانبردار صرف اللہ پر توکل کرتے ہیں تو وہ کن کن غیر مرئی اسباب سے اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے لہٰذا مسلمانوں کو مشکل سے مشکل آزمائش کے وقت بھی صرف اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور جو کام وہ کرسکتے ہیں وہ بہرحال انھیں پوری محنت سے سرانجام دینا چاہئیں۔ پھر بعد میں قرآن کے بیان میں ان تمام فرقوں کے کردار پر بھی تبصرہ آگیا ہے جو اس جنگ میں شریک تھے۔ اب ہم پہلے اس جنگ کے مختصر حالات ترتیب وار بیان کرتے ہیں تاکہ اس جنگ کا پس منظر اور واقعات بھی سامنے رہیں اور آیات قرآنی کا مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو۔ کفار کے متحدہ گروپ میں کون کون سے گروپ اور قبائل شامل تھے؟ اس جنگ میں قریش مکہ، یہود مدینہ اور مشرک بدوی قبائل سب نے حصہ لیا تھا اسی لئے اسے ’’جنگ احزاب‘‘ کہا جاتا ہے۔ رہے منافقین تو وہ کھل کر سامنے آنے کی بجائے مسلمانوں میں بددلی پھیلانے اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے، ان کا مذاق اڑانے اور دشمنوں سے سازباز کا کردار ادا کر رہے تھے۔ کافر اتحادیوں کے اس مشترکہ لشکر کا سردار چونکہ ابو سفیان ہی تھا لہٰذا اس جنگ میں زیادہ تر حصہ قریش مکہ کا ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس جنگ کا آغاز یوں ہوا کہ جنگ احد کے بعد غزوہ بنو نضیر پیش آیا۔ جس کے نتیجہ میں یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا گیا اور انہوں نے خیبر میں جاکر پناہ لی تھی۔ انھیں جلا وطن شدہ یہودیوں میں سے بیس افراد پر مشتمل ایک وفد قریش مکہ کے پاس آیا اور انھیں مسلمانوں پر ایک اجتماعی اور کاری ضرب لگانے کی ترغیب دی۔ ایسی ضرب جس سے مسلمانوں کی جڑ کٹ جائے اور یہ روزمرہ کی بک بک ختم ہو۔ قریش مکہ نے یہودی وفد کی اس آواز پر لبیک کہا اور انہوں نے اس موقع کو اس لحاظ سے بھی غنیمت جانا کہ جنگ احد کے اختتام پر ابو سفیان نے ایک سال بعد بدر کے میدان میں جنگ لڑنے کا چیلنج دیا تھا۔ مسلمانوں کے وقت مقررہ پر میدان بدر میں پہنچنے کے باوجود ابو سفیان وہاں نہ پہنچ سکا تھا۔ یہود کی اس پیش کش نے اس کے حوصلے بڑھا دیئے اور فوراً ان کا ہم نوا بن گیا۔ قریش مکہ کی طرف سے حوصلہ افزا جواب پانے کے بعد یہ وفد بنوغطفان کے پاس گیا۔ یہ قبیلہ چونکہ پہلے ہی یہود کا حلیف تھا لہٰذا وہ بھی فوراً تیار ہوگیا۔ بعد ازاں یہ وفد دوسرے اسلام دشمن قبائل میں گھوما پھرا حتیٰ کہ تمام اسلام دشمن عناصر کو مسلمانوں کے خلاف آمادہ جنگ کرلیا۔ چنانچہ ذی قعدہ ٥ ھ میں ابو سفیان کی سر کردگی میں جنوبی اطراف سے قریش، کنانہ اور تہامہ میں آباد دوسرے حلیف قبائل کا چار ہزار افراد پر مشتمل لشکر مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ مرالظہران کے مقام پر بنوسلیم کے ذیلی قبائل جنہوں نے بئرمعونہ کے قریب چوٹی کے ستر (٧٠) قاریوں کو دھوکے سے شہید کردیا تھا، ابو سفیان کے لشکر سے آکر مل گئے۔ مشرقی اطراف سے غطفانی قبائل فزارہ، حرہ اور اشجع بھی اس لشکر سے آملے۔ غرضیکہ مدینہ تک پہنچتے پہنچتے اس لشکر کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی۔ جبکہ مدینہ کی کل آبادی بھی دس ہزار سے کم تھی اس میں سے جنگجو افراد صرف تین ہزار تھے اور ان تین ہزار میں منافقین بھی شامل تھے۔ اگر مسلمانوں نے خندق کھود کر بروقت اپنا دفاع نہ کرلیا ہوتا تو فی الواقع یہ عظیم لشکر مسلمانوں کو ایک ہی حملہ میں نیست و نابود کرنے کے لئے کافی تھا۔ مجلس مشاورت اور خندق کی کھدائی :۔ دوسری طرف مسلمانوں کا محکمہ خبررسانی (Intelligence) کفار کی نسبت بہت زیادہ فعال اور متحرک تھا۔ جب یہود بنو نضیر کا وفد قریش اور دوسرے قبائل کو آمادہ جنگ کر رہا تھا تو جلد ہی یہ خبریں مدینہ پہنچ گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ دفاع کے لئے کیا صورت اختیار کی جائے؟ چنانچہ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے مطابق مدینہ کے سامنے والی سمت میں خندق کھود کر دفاع کرنے کی تجویز پاس ہوئی۔ چنانچہ خندق کی کھدائی کا کام شروع ہوگیا۔ خندق ١٥ فٹ گہری کھودی۔ ہر دس آدمیوں کو چالیس ہاتھ لمبی خندق کھودنے پر مامور کیا گیا اور تیس افراد نے مل کر یہ خندق بیس دن میں مکمل کی۔ معاشی لحاظ سے بھی مسلمانوں پر یہ وقت انتہائی تنگی کا دور تھا۔ مسلمان پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھود رہے تھے۔ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار نے مدینہ کے گرد خندق کھودنا شروع کی تو مٹی اپنی پیٹھ پر ڈھو رہے تھے اور یہ شعر پڑھتے جاتے تھے۔ ’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ جب تک زندہ رہیں گے۔ اسلام کی خاطر زندہ رہیں گے‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں یہ جواب دے رہے تھے۔ ’’یا اللہ! بھلائی تو وہی ہے جو آخرت کی ہے۔ لہٰذا مہاجرین و انصار میں برکت عطا فرما“ خوراک کی قلت :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس وقت خوراک کی قلت کا یہ حال تھا کہ تھوڑے سے جو بدبودار چربی میں ملا کر پکاتے۔ لوگ بھوکے ہوتے وہ اسے بھی کھا جاتے۔ حالانکہ وہ بدمزا چربی حلق پکڑ لیتی اور اس سے خراب بو آتی تھی۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الخندق) آپ کا اکیلے چٹان توڑنا اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم خندق کھود رہے تھے تو زمین میں ایک بڑا سخت قطعہ آگیا جو کدال سے کھد نہ سکا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورت حال سے مطلع کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں خود اترتا ہوں۔ آپ کھڑے ہوئے بھوک کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر پتھر بندھا تھا اور ہم لوگ نے بھی تین دن سے کوئی کھانے کی چیز نہ چکھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال اس قطعہ پر اس زور سے ماری کہ وہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ میں نے جب بھوک سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال دیکھا تو مجھ سے برداشت نہ ہوسکا۔ سیدھا گھر اپنی بیوی (سہیلہ) کے پاس آیا اور کہا میں نے رسول اللہ کی یہ حالت دیکھی ہے۔ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے۔ وہ کہنے لگی ایک صاع جو اور ایک بکری کا بچہ ہے۔ میری بیوی نے جو پیسے اور میں نے بکری ذبح کرکے اس کا گوشت ہانڈی میں ڈالا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے کے لئے روانہ ہوا تو بیوی کہنے لگی: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھوڑے ہی آدمی بلانا اور مجھے سب کے سامنے شرمندہ نہ کرنا‘‘ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہاں دعوت اور آپ کا معجزہ :۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر چپکے سے کہا کہ ہم نے ایک صاع جو کا آٹا پیسا ہے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے۔ لہٰذا آپ چند آدمیوں کو ہمراہ لے کر ہمارے ہاں چلئے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا، ’’خندق والو! جابر کے ہاں تمہاری دعوت ہے۔ چلو، جلدی کرو‘‘ اور جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ’’جب تک میں نہ آؤں۔ ہانڈی چولھے پر سے مت اتارنا اور نہ آٹے کی روٹیاں بنانا‘‘ میں گھر واپس لوٹا ہی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے لوگ موجود تھے۔ میری بیوی مجھے کہنے لگی ’’اللہ تجھ سے سمجھے‘‘ میاں نے کہا جیسا تو نے کہا تھا میں نے ویسا ہی آپ سے کہا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹے میں اپنا لب ڈال دیا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ ہانڈی کی طرف گئے۔ اس میں بھی لب ڈالا۔ اور میری بیوی سے فرمایا : ’’روٹی پکانے والی ایک اور بلا لے اور کفگیر سے ہانڈی میں سے گوشت نکالتی جا اور اس کو چولہے سے نہ اتارنا۔‘‘ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کھانے والے ایک ہزار آدمی تھے اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سب نے کھانا خوب سیر ہو کھایا مگر ہانڈی کا وہی حال تھا۔ وہ گوشت سے بھری جوش مار رہی تھی اور آٹے میں سے بھی روٹیاں بن رہی تھیں۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الخندق) بنو قریظہ کی عہد شکنی :۔ خندق تیار ہونے کے بعد ایک افتاد یہ پیش آئی کہ مدینہ کے اندر جو یہود کا قبیلہ بنو قریظہ، جو مسلمانوں کا معاہد اور اب تک اپنے عہد پر قائم تھا، حیی بن اخطب کی انگیخت اور جنگ کے بعد بھی تعاون کی یقین دہانی کی بنا پر عہد شکنی پر آمادہ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کی تحقیق کے لئے حذیفہ بن یمان کو بھیجا اور اسے یہ تاکید کردی کہ جو بھی صورت حال ہو کسی سے ذکر نہ کرنا اور صرف مجھے ہی آکر علیحدگی میں بتانا۔ قاصد نے صورتحال کی تحقیق کے بعد آپ کو بتایا کہ بنو قریظہ کی عہد شکنی والی بات درست ہے۔ اس خبر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی صدمہ ہوا۔ مسلمانوں کے لئے یہ وقت کڑی آزمائش کا وقت تھا۔ خندق پار دشمن کا سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا لشکر اور مدینہ کے اندر منافقین مار آستین بن گئے۔ خوراک کی شدید قلت الگ تھی۔ کفار کا یہ محاصرہ تقریباً ایک ماہ تک جاری رہا۔ ہر روز خندق کے آر پار دونوں طرف سے نیزہ باری اور تیراندازی ہوتی رہی مگر جنگ کسی فیصلہ کن مرحلہ پر نہ پہنچتی تھی۔ یہ اس قدر کڑی آزمائش تھی کہ بھلے بھلے صحابہ کرام کے قدم ڈگمگا گئے۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دو طرح سے مدد فرمائی۔ نعیم بن مسعودرضی اللہ عنہ کی سیاسی چال اور اتحادی گروپ میں پھوٹ :۔ ایک صورت تو یہ بنی کہ بنوغطفان کا ایک رئیس نعیم بن مسعود، رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آیا۔ اور اس بات کا علم نہ قریش کو ہوسکا اور نہ یہود کو۔ دونوں اسے اپنا اتحادی دوست سمجھتے تھے۔ نعیم بن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں ان حالات میں آپ کی اور اسلام کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟ چنانچہ آپ نے اس کے ذمہ قریش اور یہود میں پھوٹ ڈالنے کی ڈیوٹی لگائی۔ آدمی بڑا عقلمند تھا۔ اسے فورا ایک ترکیب سوجھ گئی وہ پہلے بنو قریظہ کے ہاں گیا اور کہنے لگا : دیکھو اگر جنگ میں اتحادیوں کو ناکامی ہوئی تو قریش تو اپنے گھروں کو چلے جائیں گے لیکن تم مسلمانوں کے اندر بیٹھے ہو۔ وہ تمہارا بھرکس نکال دیں گے۔ لہٰذا میرا مشورہ یہ ہے کہ تم قریش سے بطور یرغمال دس آدمیوں کا مطالبہ کرو تاکہ ایسی صورت میں وہ تمہارے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہوں۔ یہود کو یہ بات بہت پسند آئی۔ پھر وہ ابو سفیان کے پاس جاکر کہنے لگا : یہود تم سے بدظن ہوچکے ہیں۔ اور وہ تم سے بطور یرغمال دس آدمیوں کا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں۔ جنہیں وہ کسی وقت بھی مسلمانوں کے حوالہ کرکے جنگ کا نقشہ بدل سکتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمانوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا تم ان کا مطالبہ ہرگز تسلیم نہ کرنا۔ ابو سفیان کے دل میں یہ بات کھب گئی۔ ابو سفیان نے دوسرے دن بنو قریظہ کو مشترکہ حملہ کے لئے پیغام بھیجا تو انہوں نے بطور یرغمال دس آدمیوں کا مطالبہ کردیا۔ اس طرح یہ دونوں فریق پھوٹ کا شکار ہوگئے۔ سخت ٹھنڈی ہوا کی آندھی :۔ مسلمانوں کی مدد کی دوسری صورت جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی اور جس کا آیت میں ذکر ہے، یہ تھی کہ ٹھنڈی یخ ہوا اتنی تیز چلی جس نے خیمے اکھاڑ دیئے۔ گھوڑوں کے رسے ٹوٹ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہنڈیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ آگ بجھ گئی، ہوا اتنی سخت ٹھنڈی تھی کہ بدن کو چھید کرتی اور آر پار ہوتی معلوم ہوتی تھی۔ غرض لشکر کفار میں سخت بدحواسی پھیل گئی اور بھگڈر مچ گئی۔ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا دشمن کی خبر لانے کو تیار ہونا :۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کون ہے جو جاکر دشمن کی خبر لائے؟ مگر اتنی ٹھنڈی آندھی میں کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا۔ آپ نے دوبارہ یہی سوال کیا تو بھی سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہی نے کہا، میں جاتا ہوں۔ آپ نے سہ بار یہی سوال کیا تو پھر سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ لشکر کفار کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ رضی اللہ عنہ خود کہتے ہیں کہ اس وقت مجھے قطعاً کچھ سردی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے واپس آکر وہی حالات بیان کئے جو لوگ سن رہے تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہر پیغمبر کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ خندق وھی الاحزاب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ آئندہ کفار ہم پر حملہ نہ کرسکیں گے :۔ چنانچہ ان حالات نے دشمن کو واپسی پر مجبور کردیا اور وہ افراتفری کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آج کے دن کے بعد کفار ہم پر چڑھ کر نہیں آئیں گے بلکہ ہم ان پر چڑھائی کریں گے‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ خندق) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد حرف بحرف پورا ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے غیر مرئی لشکر :۔ اس آیت میں ایک تو ہوا سے مدد کا ذکر ہے اور دوسرے ایسے لشکروں سے مدد کا ذکر ہے جو تمہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ اس سے مراد وہ باطنی اسباب ہیں جن کی بنا پر کفار بھاگ کھڑا ہونے پر مجبور ہوتے تھے۔ ممکن ہے اس سے مراد فرشتے ہوں جو ہواؤں پر مامور تھے۔ واللہ اعلم۔ بہرحال اس جنگ میں فرشتوں کا نزول احادیث صحیحہ سے صراحت سے ثابت نہیں۔