النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا
بلاشبہ نبی مومنوں کے لئے ان کی اپنی ذات سے بھی مقدم [٨] ہے اور آپ کی بیویاں مومنوں [٩] کی مائیں ہیں۔ اور کتاب اللہ کی رو سے مومنین اور مہاجرین کی نسبت، رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ (ترکہ کے) حقدار ہیں۔ البتہ اگر تم اپنے دوستوں سے کوئی [١٠] بھلائی کرنا چاہو (تو کرسکتے ہو) کتاب [١١] اللہ میں یہی کچھ لکھا ہوا ہے۔
[٨] آپ مومنوں کے ان کی ذات سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں :۔ اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک مطلب یہ ہے کہ تم خود بھی اپنے اتنے خیر خواہ نہیں ہوسکتے جتنا کہ نبی تمہارا خیر خواہ ہے۔ پھر اس کے بھی دو پہلو ہیں ایک دینی دوسرا دنیوی۔ دینی لحاظ سے آپ کی تمام امت کو آپ ہی کی وساطت سے ہدایت کا راستہ ملا جس میں ہماری دنیوی اور اخروی فلاح ہے۔ آپ ہمارے معلم بھی ہیں اور مربی بھی، اس لحاظ سے آپ تمام امت کے روحانی باپ بھی ہوئے اور روحانی استاد بھی۔ اور دنیوی پہلو میں آپ کی سب سے زیادہ خیرخواہی درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جتنے بھی مومن ہیں میں ان سب کا دنیا اور آخرت کے کاموں میں سب لوگوں سے زیادہ حقدار (اور خیر خواہ) ہوں۔ جو مومن مرتے وقت مال و دولت چھوڑ جائے اس کے وارث اس کے عزیز و اقارب ہوں گے جو بھی ہوں اور اگر وہ کچھ قرض یا چھوٹے چھوٹے بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں میں ان کا کام چلانے والا ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) تمام لوگوں سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا :۔ اور آپ کی اس حد درجہ کی خیرخواہی کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان بھی آپ کا دوسرے سب لوگوں سے بڑھ کر احترام کریں اور ان کی اطاعت کریں تاکہ آپ کی تعلیم و تربیت سے پوری طرح فیض یاب ہوسکیں اور اس پہلو پر درج ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں : ١۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو میری محبت، اولاد، والدین اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو‘‘ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب وجوب محبۃ رسول اللہ ) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہش نفس کو اس چیز کے تابع نہ کر دے جو میں لایا ہوں‘‘ (شرح السنۃ۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ۔ فصل ثانی) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے نزدیک اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں، تم مومن نہیں ہوسکتے‘‘ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ’’اللہ کی قسم! اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اب اے عمر!‘‘ (یعنی اب تم صحیح مسلم ہو) (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کان یمین النبی ) [٩] جب نبی روحانی باپ ہوا تو اس کی بیویاں روحانی مائیں ہوئیں۔ یا جب نبی کی بیویاں امت کی مائیں ہیں تو نبی ان کا باپ ہوا۔ لیکن ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف احترام کے پہلو میں امت کی مائیں ہیں اور ان سے کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نکاح بھی نہیں کرسکتا اور باقی احکام بدستور رہیں گے۔ مثلاً وہ مومنوں سے باقاعدہ پردہ کریں گی اور وہ انھیں اجنبی ہی سمجھیں گی نہ ہی وہ کسی امتی کی وراثت میں دعویدار بن سکتی ہیں۔ وغیرہ۔ [١٠] مؤاخات اور وراثت :۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمان ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو ایک نہایت اہم مسئلہ مہاجرین کی آبادکاری اور ان کے ذریعہ معاش کا بھی تھا۔ جو اس نوزائیدہ مسلم ریاست کے لئے فوری طور پر حل طلب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نازک مسئلہ کے حل میں نہایت دانشمندی سے کام لیا۔ اور ایک مہاجر کو ایک انصاری کے ساتھ ملا کر اس کی آبادی اور اس کے معاش کی ذمہ داری اس پر ڈال دی۔ اس ذمہ داری کو انصار نے بڑی فراخدلی سے قبول کیا۔ اس سلسلہ کو مؤاخات کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں مختلف اوقات کی تین مجالس میں تقریباً تنتالیس مہاجرین کو اتنے ہی انصار کا بھائی بنا دیا۔ اس طرح عارضی طور پر مہاجرین کی آباد کاری اور معاش کا مسئلہ حل ہوگیا۔ پھر یہ بھائی چارہ اس حد تک بڑھا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث اور ولی قرار پاگئے۔ مہاجر کی وراثت اس کے انصاری بھائی کو ملتی تھی اور انصاری کی اس کے مہاجر بھائی کو۔ پھر جب مسلمانوں کی معاشی حالت نسبتاً بہتر ہوگئی تو اس عارض قانون کو ختم کردیا گیا اور اصل وارث قریبی رشتہ دار ہی قرار پائے۔ ہاں ان بھائیوں سے حق وراثت کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بہتر سلوک کی اجازت دی گئی۔ مثلاً کوئی شخص ان کے حق میں وصیت کرسکتا ہے۔ اپنی زندگی میں مالی امداد اور ہبہ کرسکتا ہے۔ تحفے تحائف دے سکتا ہے۔ [١١] یعنی مؤاخات کے بھائیوں کو ایک دوسرے کا وارث بنا دینا ایک عارضی قانون تھا۔ مستقل قانون شریعت یہی ہے کہ وراثت کے حقدار قرابتدار ہی ہوتے ہیں۔