ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ اللہ کے ہاں یہی انصاف کی بات ہے۔ اور اگر تمہیں ان کے باپوں (کے نام) کا علم نہ ہو [٤] تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔ اور کوئی بات تم بھول چوک کی بنا پر کہہ دو تو اس میں تم پر کوئی گرفت [٥] نہیں، مگر جو دل کے ارادہ [٦] سے کہو (اس پر ضرورگرفت ہوگی۔) اللہ تعالیٰ یقیناً معاف [٧] کرنے والا ہے، رحم کرنے والا ہے۔
[٤] سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ اور صہیب رومی رضی اللہ عنہ :۔ جیسے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے باپ کا علم خود انھیں بھی نہیں تھا۔ بچپن میں ہی انھیں غلام بنا لیا گیا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ مجھے دس سے زیادہ مرتبہ بیچا اور خریدا گیا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سلمان الفارسی) اور جیسے سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ جو اصل میں ایرانی تھے۔ مگر اہل روم نے جب فارس پر حملہ کیا تو انھیں بچپن ہی میں قیدی بنا کر روم لے گئے تھے اور دونوں صحابہ کرام کو اپنے اپنے والد کے نام تک معلوم نہ تھے۔ [٥] یعنی اگر کوئی کسی کو پیار سے بیٹا یا بیٹی کہہ دے یا کسی کا احترام ملحوظ رکھ کر کسی بزرگ کو باپ یا بزرگ عورت کو ماں کہہ دے یا محض اخلاقاً یہ الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ حرج اس وقت واقع ہوتا ہے کہ اگر کسی کو بیٹا یا بیٹی کہے تو حقیقی بیٹے یا بیٹی جیسے فرائض، حقوق بھی اپنے اوپر لازم کرلے۔ [٦] اپنے آپ کو کسی دوسرے فرد یا قوم کی طرف منسوب کرنا کبیرہ گناہ ہے :۔ جس طرح عام مومنوں کو حکم ہے کہ وہ کسی شخص کو اس کے حقیقی باپ ہی کی طرف منسوب کریں کسی دوسرے کی طرف نہ کریں۔ اسی طرح یہ بھی حکم ہے کہ کوئی شخص خود بھی اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص یا کسی قوم کی طرف منسوب نہ کرے۔ چنانچہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے دوسرے شخص کو جان بوجھ کر اپنا باپ بنایا وہ کافر ہوگیا اور جو شخص اپنے تئیں دوسری قوم کا بتائے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے“(بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب نسبۃ الیمن الی اسمٰعیل) ہمارے ملک میں سید بننے کا یا کسی اونچی ذات سے نسبت قائم کرنے کا عام رواج ہے۔ ایسے حضرات اس حدیث کے آئینے میں اپنا انجام دیکھ سکتے ہیں۔ [٧] اس کا ایک مطلب تو ہے کہ اس سلسلہ میں تم سے جو پہلے لغزشیں اور غلطیاں ہوچکی ہیں اللہ انھیں معاف کرنے والا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر تم نادانستہ کوئی ایسی بات کہہ دو یا بھول چوک کہہ دو تو ایسی خطائیں بھی اللہ معاف کرنے والا ہے۔