قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ
آپ ان سے کہئے کہ :’’جب فیصلہ کا دن ہوگا تو جن لوگوں نے کفر کیا [٣٠] ہے انھیں فیصلہ کے دن ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دے گا اور نہ ہی انھیں کچھ مہلت دی جائے گی‘‘
[ ٣٠] یعنی کافروں کا ہمیشہ یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ جو ہم پر عذاب کا وعدہ دیا جاتا ہے یا ایمان لانے والوں کے لئے مدد اور فتح و نصرت کی نوید سنائی جاتی ہے تو ایسے وعدے کا کوئی معین وقت بتلا دیا جائے۔ اور یہ معین وقت بتلا دینا ہی حکمت الٰہی کے خلاف ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے سوال کے جواب میں کفار کی توجہ اس کے دوسرے پہلوؤں کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے جن پر عمل کی بنیاد اٹھتی ہو۔ اور یہی قرآن کا حقیقی مقصد ہوتا ہے۔ یہاں بھی اس سوال کا جواب اسی انداز میں دیا گیا ہے کہ تم اسی مہلت کو غنیمت سمجھو جو اس وقت تمہیں حاصل ہے۔ کیونکہ وہ فیصلہ کا دن آگیا تو اس وقت نہ تمہارا اسلام لانا کچھ فائدہ دے سکتا ہے اور نہ مزید مہلت ملے گی۔ نہ تمہیں سنبھلنے کا موقع ملے گا لہٰذا اس کے لئے بے چین ہونا چھوڑ دو۔ البتہ اگر اپنے فائدہ کی بات سوچ سکتے ہو تو سوچو۔