وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ
ہم نے موسیٰ کو کتاب [٢٤] دی تھی لہٰذا (اے نبی!) آپ کو اس کتاب کے ملنے [٢٥] میں شک نہ رہنا چاہئے۔ یہ کتاب بنی اسرائیل کے لئے ہدایت تھی
[ ٢٤] اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی آیات سے منہ موڑنے کا ذکر تھا۔ اسی نسبت سے یہاں تورات کا ذکر ہوا جو قرآن کے بعد سب الہامی کتابوں سے زیادہ مشہور ہے۔ تورات صرف بنی اسرائیل کے لئے ہدایت کی کتاب تھی جبکہ یہ قرآن پوری بنی نوع انسان کے لئے کتاب ہدایت ہے۔ [ ٢٥] اس جملہ میں خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر مخاطب سارے مومنین ہیں۔ کیونکہ نبی سب سے پہلے خود اپنی نبوت پر ایمان لاتا ہے۔ پھر دوسروں کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ لہٰذا منزل من اللہ کلام پر رسول کا شک کرنا محالات سے ہے۔ اور ایسا انداز خطاب عموماً تاکید مزید کے لئے آتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو کسی قیمت پر بھی اس میں شک نہ کرنا چاہئے۔ بعض علماء نے اس آیت لقائه میں ہ کی ضمیر کو موسیٰ کی طرف راجع سمجھا ہے اور اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ آپ کی موسیٰ سے اسی دنیا کی زندگی میں ضرور ملاقات ہوگی اور آپ کو اس ملاقات کے بارے میں شک میں نہ رہنا چاہئے کہ آپ کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ ملاقات معراج کے موقع پر چھٹے آسمان پر ہوئی تھی۔