أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اس (قرآن) کو خود ہی گھڑ لیا ہے (بات یوں نہیں) بلکہ یہ آپ کے پروردگار [١۔ الف] کی طرف سے حق ہے۔ تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا [٢]۔ شاید وہ ہدایت [٣] پاجائیں
[الف] تصنیف کےلیے مہارت لازمی ہے:۔ سوچنے کی بات ہے کہ کوئی انسان صرف اسی موضوع پر کتاب لکھ سکتا ہے جس میں اسے مہارت حاصل ہو اور لوگوں میں وہ اس فن کے عالم کی حیثیت سے کسی حد تک معروف ہو۔ اور تصنیف اس لئے کرتا ہے کہ وہ لوگوں پر اپنی علمیت اور مہارت کا سکہ بٹھائے اور لوگوں میں اور اس کی کتاب کو عام مقبولیت حاصل ہو۔ لیکن یہاں معاملہ سارے کا سارا اس سے بالکل برعکس تھا۔ نبوت کے بعد آپ نے جو کلام پیش کیا۔ نبوت سے پیشتر آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی تھی جس سے نبوت کے بعد والے کلام کے لئے کوئی اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام پیش کیا وہ ان لوگوں کی عادات، رسوم، مزاج اور طبائع کے یکسر مخالف تھا اس سے آپ کا لوگوں میں مقبول ہونا تو دور کی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا یہ کلام پیش کرکے کسی بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا۔ جس سے پوری قوم آپ کی دشمن بن گئی۔ اب کفار سے سوال یہ ہے کہ کیا کوئی شخص ایسا کام اپنی مرضی سے کرسکتا ہے جس سے سب لوگ اس کے دشمن بن جائیں؟ اور اگر یہ بات عقلاً محال ہے تو پھر یہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کام پر مامور کیا ہے کہ وہ اللہ کا کلام لوگوں کے سامنے پیش کردے۔ اس سے لوگ اس کے مخالف ہوتے ہیں۔ تو ہوجائیں، اسے دکھ پہنچاتے ہیں تو پہنچا لیں اور اس کے دشمن بنتے ہیں تو بن جائیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کے سامنے اس بات کا پابند ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی ناخوشگوار پیش آئیں وہ اللہ کا کلام لوگوں تک پہنچا دے۔ [ ٢]عرب میں کون کون سے انبیاء مبعوث ہوئے؟ عرب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مدتوں پہلے حضرت ہود علیہ السلام ، قوم عاد کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف ان کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ پھر ان کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام پیدا ہوئے۔ باقی زیادہ تر انبیاء شام اور فلسطین کے علاقہ میں بھی مبعوث ہوتے رہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درمیانی وقفہ دو ہزار سال کے لگ بھگ ہے۔ اور چونکہ یہ دو ہزارسال کی مدت بھی ایک طویل مدت ہے جس میں بہت سے انبیاء عرب کی حدود سے باہر مبعوث ہوتے رہے۔ اسی لئے فرمایا کہ اہل عرب کے پاس پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ [ ٣]آپ کی نبوت سے پہلےاس کےاسلام پسندحضرات:۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دو ہزار سال تک اہل عرب کے ہاں کوئی رسول ہی نہ آیا ہو نہ ہی اللہ کی طرف سے حجت پوری ہوئی ہو تو پھر ان لوگوں کو ان کے کفر و شرک کی بنا پر عذاب کیوں کر ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ عذاب سے پہلے لوگوں پر حجت پوری کرلیتا ہے اور کسی پر ذرہ بھی ظلم و زیادتی نہیں کرتا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء کی تعلیم ان لوگوں تک بھی برابر پہنچتی رہی تھی۔ کیونکہ ان لوگوں کا شام و فلسطین کے لوگوں سے گہرا میل جول بھی تھا اور تجارتی قافلے بھی آتے جاتے رہتے تھے لہٰذا ان مشرکین مکہ میں بھی ایسے لوگ ہر دور میں موجود رہے جو شرک سے بیزار اور توحید کے قائل تھے بعثت نبوی کے وقت بھی ایسے لوگ موجود تھے جو شرک سے بیزاری کے علاوہ شراب نوشی، جاہلی حمیت اور جدال و قتال سے بھی متنفر تھے۔ لیکن انھیں کوئی واضح راہ نہیں مل رہی تھی۔ نہ ہی ایسے لوگوں کے باہمی اتحاد کی کوئی صورت ممکن تھی۔ ایسے لوگوں کو جب ایک پیغمبر کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو گویا ان لوگوں کے دل کی مراد بر آئی اور وہ فوراً اسلام لے آئے۔ ان میں سرفہرت تو ورقہ بن نوفل ہیں جو بعثت کے وقت صاحب فراش تھے۔ جلد ہی فوت ہوگئے اور انھیں باقاعدہ اسلام لانے کا اعزاز حاصل نہ ہوسکا۔ باقی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ، حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ غفاری، حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل وغیرہ سب کے سب شرک سے بیزار اور موحد تھے۔ جو فوراً اسلام لے آئے تھے۔ پھر بے شمار ایسے موحد بھی ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں جو آپ کی بعثت سے پیشتر فوت ہوچکے تھے اور یہ سب انبیائے بنی اسرائیل کی تعلیمات کا اثر تھا۔