سورة لقمان - آیت 19

وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اپنی چال میں اعتدال ملحوظ رکھو اور اپنی آواز پست [٢٥] کرو۔ بلاشبہ سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٥] ضرورت کےلیےبلندآوازمذموم نہیں بلکہ جودھونس جمانےکےلیےہو:۔ بعض دفعہ ضرورت کی وجہ سے انسان کو بلند آواز سے پکارنا پڑتا ہے۔ مثلاً دو چار آدمی آس پاس بیٹھے ہوں تو پست آواز سے کام چل جاتا ہے۔ مگر زیادہ آدمیوں کو بات سنانا مقصود ہو یا کوئی شخص خطاب کر رہا ہو اذان دیتے وقت انسان کو بلند آواز نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پست آواز سے کام ہی نہیں چلتا۔ ایسے مواقع پر بلند آواز سے بات کرنا یا خطاب کرنا ہرگز مذموم نہیں ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ استاد کو اپنے شاگرد کو سرزنش کرنے یا ڈانٹنے کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت بھی اگر وہ آواز پست اور نرم لہجہ رکھے گا تو شاگرد پر خاک بھی اثر نہ ہوگا۔ مذموم چیز یہ ہے کہ کوئی شخص از راہ تکبر دوسروں پر دھونس جمانے اور انھیں ذلیل یا مرعوب کرنے کے لئے بتکلف گلا پھاڑے یا چلا کر بات کرے۔ اس غرض سے جب کوئی چلا چلا کر بولتا ہے تو بسا اوقات آواز بے ڈھنگی اور بے سری ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ کہ اگر یہ بھی کوئی خوبی کی بات ہوتی تو یہ کام تو گدھے تم سے اچھا کرسکتے ہیں۔ حالانکہ ان کی آواز سے سب نفرت کرتے ہیں۔