وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور اگر وہ تجھ پر یہ دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں [١٩] تو ان کا کہا نہ ماننا۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے بھلائی کے ساتھ رفاقت کرنا مگر پیروی اس شخص کی راہ کی کرنا جس نے میری طرف رجوع [٢٠] کیا ہو۔ پھر تمہیں میرے پاس [٢١] ہی لوٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں بتادوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
[١٩] السماء کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ عنکبوت کی آیت نمبر ٨ کا حاشیہ نمبر ١٢ [ ٢٠] یعنی والدین بھی اگر شرک پر یا دین کے خلاف کسی بات کے لئے مجبور کریں تو ان کی بات اللہ کے حکم کے مقابلہ میں تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے اچھا سلوک کیا جائے خواہ والدین کافر ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً محتاج ہوں، تو ان کی مالی اعانت کی جائے۔ اور دین کے علاوہ دوسری باتوں میں ان کی اطاعت کی جائے۔ ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھا جائے۔ ان سے محبت اور شفقت سے سلوک کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ اللہ کے مخلص بندوں کی راہ ہے۔ لہٰذا انہی کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ [ ٢١] یعنی والدین کو بھی اور اولاد کو بھی سب کو میرے حضور ہی پیش ہونا ہے۔ میں سب کو بتلا دوں گا کہ زیادتی اور تقصیر کسی کی تھی۔