وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
اور (یاد کرو) جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا کہ : ’’پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک [١٥] نہ بنانا، کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
[١٥]بیٹے کوپہلی نصیحت، اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا:۔ ایک دفعہ حضرت لقمان نے چند نصیحتیں اپنے بیٹے کو فرمائیں کہ وہ اتنی اہم تھیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا۔ دنیا میں اولاد ہی ایک ایسا رشتہ ہے جس کے متعلق انسان انتہائی خلوص برتتا ہے اور نفاق نہیں کرسکتا۔ اور اولاد ہی کے متعلق اس کی آرزو ہوسکتی ہے کہ وہ ہر بھلائی کی بات میں اس سے آگے نکل جائے۔ حتیٰ کہ ایسی آرزو انسان اپنے حقیقی بہن بھائیوں اور دوستوں تک سے بھی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ پہلی نصیحت جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وہ یہ تھی کہ اللہ کے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہ بنانا۔ کیونکہ دنیا میں سب سے بڑی ناانصافی اور اندھیر کی بات یہی شرک ہی ہے۔ شرک مجسم ظلم اور سب سے بڑا ظلم ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب (سورہ انعام کی) یہ آیت اتری۔ ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ ﴾ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بہت شاق گزری۔ وہ کہنے لگے ’’ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ایمان کے ساتھ ظلم (یعنی کوئی گناہ) نہ کیا ہو۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بتلایا کہ اس آیت میں ظلم سے ہر گناہ مراد نہیں ہے (بلکہ شرک مراد ہے) کیا ہم نے لقمان کا قول نہیں سنا۔ جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تھا۔ ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اللہ کا اپنے بندوں پرا ور بندوں کا اپنے اللہ پرحق:۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اہل مکہ ایک طرف تو لقمان حکیم کے حکیم اور دانا ہونے کے قائل تھے، دوسری طرف شرک میں بھی بری طرح مبتلا تھے۔ انھیں بتلایا جارہا ہے۔ کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصحیتیں کی تھیں ان میں سرفہرست شرک سے ان کی نفرت اور بیزاری تھی۔ کیونکہ اللہ کا بندے پر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’تجھے معلوم ہے کہ اللہ کا اس کے بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟‘‘ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ : ’’اللہ اور اس کا پیغمبر ہی خوب جانتے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جو بندہ شرک نہ کرتا ہو اللہ اسے عذاب نہ کرے‘‘ (ہمیشہ دوزخ میں نہ رکھے) میں نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ! کیا میں لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سنا دوں؟‘‘ فرمایا : ’’ایسا نہ کرو ورنہ وہ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب اسم الفرس والحمار)