وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی (جو یہ تھی) کہ اللہ کا شکر ادا کرتے رہو۔ جو کوئی شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی (فائدہ کے) لئے کرتا ہے اور جو ناشکری [١٤] کرے تو اللہ یقیناً (اس کے شکر سے) بے نیاز ہے اور خود اپنی ذات میں محمود ہے
[١٤]سیدنا لقمان کون تھے۔۔۔۔شکرکی تلقین اور اللہ کی بےنیازی:۔ حضرت لقمان حبشہ یا مصر کے رہنے والے تھے۔ بعد میں شام میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ پایا۔ آپ کی نبوت میں اختلاف ہے اور راجح یہی بات ہے کہ آپ نبی نہیں تھے۔ البتہ حکیم اور دانا ضرور تھے۔ عرب بھر میں وہ اپنی حکمت و دانائی کی وجہ سے مشہور تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جو حکمت اور دانائی کی باتیں سکھلائی تھیں ان میں سرفہرست یہ بات تھی کہ اگر اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے تو اس کا فائدہ شکر ادا کرنے والے کو پہنچتا ہے۔ شکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھ دی کہ وہ مزید توجہ اور مہربانی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اللہ کا اس لئے بھی شکر ادا کرنا چاہئے تاکہ وہ مزید انعامات فرمائے اور بندوں کا بھی ضرور احسان مند ہونا چاہئے جو کوئی احسان کرے۔ اور یہ ایسی باتیں ہیں جو تقریباً ہر انسان کے تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ اور ناشکری اور نمک حرامی یا احسان فراموشی کے نتائح اس کے بالکل برعکس نکلتے ہیں۔ پہلی نعمتیں بھی چھین لی جاتی ہیں۔ بہرحال شکر کرنے کا فائدہ بھی شکر کرنے والے کو ہی پہنچتا ہے اور ناشکری کا نقصان بھی اسے ہی پہنچتا ہے۔ رہا اللہ کا معاملہ تو اللہ لوگوں کے شکر یا ناشکری سے بے نیاز ہے۔ کیونکہ اس کے سب کارنامے ہی ایسے ہیں جو قابل ستائش ہیں اور وہ اپنی ذات میں ہی محمود ہے۔ یہ تھی وہ پہلی دانائی کی بات جو اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان علیہ السلام کو سکھلائی تھی۔