سورة العنكبوت - آیت 46

وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَٰهُنَا وَإِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(اے مسلمانو!) اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریق [٧٦] سے جو بہتر ہو۔ اور صرف انھیں سے جھگڑا کرو جو ان میں سے بے انصاف [٧٧] ہیں اور ان سے یوں کہو کہ : ہم تو اس پر بھی ایمان لاتے ہیں جو ہماری طرف نازل کی گئی اور اس پر بھی جو تمہاری طرف نازل کی گئی اور ہمارا اور تمہارا الٰہ [٧٨] ایک ہی ہے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٦] اہل کتاب کے ہاں جتنی سچائی ہے اس کا اعتراف کرنا چاہیے :۔ یعنی مشرکوں کا دین تو سراسر باطل ہے۔ مگر اہل کتاب کا دین اپنی اصل کے لحاظ سے سچا تھا۔ لہٰذا ان سے تمہاری بحث کا انداز مشرکوں سے جداگانہ ہوجانا چاہئے۔ اور ان کے مذاہب میں جتنی سچائی موجود ہے اس کا اعتراف کرنا چاہئے۔ پھر جس مقام سے اختلاف واقع ہوتا ہے وہ نرمی، متانت سے اور خیر خواہی کے جذبے سے انھیں سمجھانا چاہئے۔ بحث کا انداز یہ نہ ہونا چاہئے کہ دوسرے کو سراسر غلط اور نیچا دکھانے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے اسے اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا آسان ہوجائے۔ [٧٧] بے انصاف یا ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذہبی تعصب کو ہی سب سے بڑی قدر سمجھتے ہوں۔ اور ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہوں جیسا کہ یہود مدینہ میں کعب بن اشرف اور ابو رافع سلام بن ابی الحقیق اور مشرکین مکہ میں ابو جہل اور اس کے ساتھی تھے۔ [٧٨] دوسروں سے بحث کیسے؟اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بحث کا انداز بھی خود ہی سمجھا دیا۔ یعنی جن جن باتوں میں فریقین میں موافقت اور مطابقت پائی جاتی ہے۔ پہلے ان کا ذکر کرکے انھیں اپنی طرف مائل کیا جائے۔ یہ نہ ہونا چاہئے کہ ابتداء میں اختلافی امور کو زیر بحث لا کر فریق مخالف کو اپنا مزید مخالف بنالیا جائے۔ یعنی زبان شیریں اور انداز گفتگو ایسے ناصحانہ ہونا چاہئے جس سے وہ چڑ جانے کی بجائے بات کو تسلیم کرلینے پر آمادہ ہوجائے۔