وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ
وہ لوگوں سے گہوارے [٤٧] میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی اور بڑا نیک سیرت ہوگا‘‘
[٤٧] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : گہوارہ میں تین بچوں کے سوا کسی بچہ نے بات نہیں کی۔ ان میں سے ایک عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہیں۔ دوسرے بنی اسرائیل سے جریج راہب جس پر حرامی بچہ کی نسبت تہمت لگائی تھی: اس نے بول کر اپنے اصلی باپ کا نام بتلا دیا۔ تیسرے وہ بچہ جس نے ماں کی چھاتی چھوڑ کر کہا تھا یا اللہ ! مجھے اس ظالم سوار کی طرح نہ کرنا۔ (بخاری، کتاب الأنبیاء، باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم اذا نتبذت من أھلھا) اور مہد (گود) میں کلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بچہ ابھی گود میں ہو، شیر خوار ہو اور وہ کلام کرنے کی عمر کو نہ پہنچا ہو، نہ ہی ابھی اس نے کلام کرنا سیکھا ہو اور ’کھلا‘ کا مطلب پختہ عمر ہے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مہد میں بھی ایسے ہی کلام کیا۔ جیسے پختہ عمر میں کیا یا دوسرے لوگ پختہ عمر میں کیا کرتے ہیں اور اس عمر میں ان کا کلام ایسا پر مغز اور معقول تھا جیسا کہ عام لوگ پختہ عمر میں کیا کرتے ہیں۔ اس وقت آپ نے کیا باتیں کیں۔ اس کی تفصیل سورۃ مریم میں آئے گی، سردست یہ بتلانا مقصود ہے کہ اس عمر میں آپ کے ایسے کلام سے لوگوں کو متنبہ کرنا مقصود تھا۔ وہ اللہ کی قدرت کاملہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں اور جو لوگ ان کی والدہ ماجدہ کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں وہ غلط کار ہیں۔ ان کی والدہ پاک دامن، صدیقہ اور راست باز ہیں۔ جو کچھ وہ کہتی ہیں وہ بالکل سچ اور حقیقت پر مبنی ہے۔ سیدناعیسیٰ کی پیدائش کےمتعلق نظریات:۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس خرق عادت پیدائش کے بارے میں تین مختلف الرائے گروہ پائے جاتے ہیں۔ پہلا فریق تو یہود ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایسی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود انہیں معاذ اللہ ولدالحرام کہتے ہیں۔ حضرت مریم علیہا السلام پر زنا کی تہمت لگائی اور ان کے ساتھ حضرت زکریا علیہ السلام کو ملوث کیا۔ پھر آخر اپنی اسی بدظنی کی بنا پر انہیں قتل بھی کردیا۔ دوسرا گروہ نصاریٰ کا ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت مریم علیہا السلام کی منگنی ان کے چچا زاد بھائی یوسف نجار سے ہوئی تھی۔ مگر ابھی نکاح نہیں ہوا تھا کہ انہیں اللہ کی قدرت سے حضرت عیسیٰ کا حمل ٹھہر گیا جب یوسف کو اس صورت حال کا علم ہوا تو اس نے یہ منگنی توڑ دینا چاہی، مگر خواب میں اسے ایک فرشتہ ملا جس نے بتلایا کہ مریم پاک باز عورت اور ہر طرح کے الزامات سے بری ہے۔ اسے حمل اللہ کی قدرت سے ہوا ہے۔ لہٰذا تم ایسی پاک باز اور پاکیزہ سیرت عورت کو ہرگز نہ چھوڑنا چنانچہ یوسف نے اپنی رائے بدل دی۔ پھر اس کے بعد اس نے یوسف سے شادی کی۔ اور اولاد بھی ہوئی۔ یہ فریق اپنے بیان کے مطابق مختلف اناجیل سے حوالے بھی پیش کرتا ہے۔ تیسرا گروہ منکرین معجزات کا ہے جو حضرت عیسیٰ کی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں لیکن وہ تاویل ایسی پیش کرتے ہیں جس کا ثبوت نہ کتاب و سنت سے مل سکتا ہے نہ اناجیل سے اور نہ کسی دوسری کتاب سے، اور وہ تاویل یہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کی یوسف نجار سے منگنی نہیں بلکہ نکاح ہوچکا تھا۔ مگر ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ یوسف مریم کے پاس یا مریم یوسف کے پاس گئی۔ اور ان کے باہمی ملاپ سے حمل ٹھہرا اور یہ ایسا بیان ہے جو حضرت مریم علیہا السلام کی اس قرآنی صراحت ﴿ وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَر﴾ کے صریحاً خلاف ہے۔ رہی یہ بات کہ اگر معاملہ یہی تھا تو یہود نے حضرت مریم علیہا السلام کو لعن طعن کس بات پر کی تھی؟ تو اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہود میں رخصتی سے پہلے میاں بیوی کی مباشرت شدید جرم سمجھا جاتا تھا، خواہ نکاح ہوچکا ہو، اور اسی جرم کی بنا پر یہود نے لعن طعن کی تھی۔ حالانکہ یہ بات بھی قرآنی تصریحات کے بالکل برعکس ہے۔ نیز ان کے نظریہ کو بھی کسی کتاب کے حوالہ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے قرآن میں اپنے نظریات کو بہ تکلف داخل کرنا چاہتے ہیں خواہ اس سے قرآن کی کتنی ہی آیات کا انکار لازم آتا ہو۔