قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۖ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ
زکریا نے عرض کی: ’’پروردگار! پھر میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما دے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا : ’’ نشانی یہ ہے کہ آپ تین دن لوگوں سے اشارہ کے سوا [٤٣] بات چیت نہ کرسکیں گے۔ ان دنوں اپنے پروردگار کو بہت یاد کیا کیجئے اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کیجئے۔‘‘
[٤٣]فرشتوں کی سیدنا زکریا سے ہمکلامی اور بیٹے کی بشارت:۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زکریا علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی۔ ایک دفعہ جب محراب میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے تو فرشتوں نے آپ کو بیٹے کی خوشخبری دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیٹے کا نام یحییٰ بھی خود تجویز فرما دیا اور اس کی صفات بھی بیان فرما دیں جو یہ تھیں : (١) اس کا نام اللہ تعالیٰ نے خود یحییٰ رکھا اور بتلایا کہ پہلے آج تک کسی انسان کا یہ نام نہیں رکھا، (٢) کلمۃ اللہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرے گا، (٣) وہ بنی اسرائیل کا سردار ہوگا اور اس قوم کی خراب حالت کی اصلاح کرے گا (، ٤) وہ حصور ہوگا، یعنی اس کی نہ تو عورتوں کی طرف کچھ رغبت ہوگی اور نہ گناہ کے کاموں کی طرف۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ (٥) وہ نبی ہوگا اور پاک بازلوگوں میں سے ہوگا۔ چنانچہ جب حضرت زکریا علیہ السلام نے فرشتوں کی زبانی ایسے شان والے فرزند ارجمند کی بشارت سنی تو مسرت و استعجاب کے ملے جلے جذبات سے اللہ کے حضور وہی مانع حمل اسباب بتلا دیئے جن کی وجہ سے آپ اب اولاد سے مایوس ہوچکے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سوال کے جواب میں یہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے مانع حمل اسباب کے باوجود اس کی قدرت رکھتا ہے اور وہ جیسے چاہے کرسکتا ہے۔ اب زکریا علیہ السلام کا اگلا سوال یہ تھا کہ اس استقرار حمل کی کوئی علامت بتلا دی جائے، جب یہ عجیب غیر معمولی واقعہ پیش آنے والا ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا علامت یہ ہے کہ آپ لوگوں سے مسلسل تین دن تک بات چیت نہ کرسکیں گے، پس ہاتھ، آنکھ اور ابرو کے اشارہ سے کلام چلائیں گے ان دنوں تمہاری زبان صرف اللہ کے ذکر پر چل سکے گی۔ لہٰذا ان دنوں میں صبح و شام زیادہ سے زیادہ اللہ کی تسبیح اور ذکر اذکار کرتے رہنا۔ واضح رہے کہ وحی الٰہی کی سب سے معروف صورت تو یہ ہے کہ جبریل امین نبی کے دل پر نازل ہو کر وحی کا القاء کرتا ہے۔ یا بعض اوقات کبھی انسان کی صورت میں آکر نبی سے بات چیت کرتا ہے اور یہ ایسی وحی ہوتی ہے جس کا تعلق صرف نبی سے نہیں امت سے بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ایک فرشتہ کی بجائے الملائکة (فرشتے) کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ وحی کی ایک خاص قسم ہے اور اس کا تعلق صرف مخاطب سے ہوتا ہے۔ یعنی فرشتوں کا مخاطب سے مکالمہ ہوتا ہے ایسے مخاطب کا نبی ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی وحی کو دوسروں تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی مکالمہ فرشتوں نے حضرت مریم علیہا السلام سے بھی کیا۔ حالانکہ وہ نبی نہیں تھیں۔ ایسی وحی کی کیا کیفیت ہے؟ اس قسم کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی تصریح نہیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ انسان کی عقل اسے سمجھنے سے اور زبان اسے بیان کرنے سے قاصر ہے تو بالکل درست ہوگا۔