وَنَزَعْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا فَقُلْنَا هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوا أَنَّ الْحَقَّ لِلَّهِ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
اور ہم ہر ایک امت سے ایک گواہ [٩٩] نکال لیں گے، پھر اسے کہیں گے کہ : (اس سڑک پر) اپنی دلیل [١٠٠] پیش کرو۔ اب انھیں معلوم ہوجائے گا کہ بات اللہ ہی کی سچی تھی اور جو کچھ وہ افترا کیا کرتے تھے انھیں کچھ یاد نہ آئے گا۔
[٩٩] یہ گواہ وہ شخص ہوگا جس کے ذریعہ اللہ کا پیغام اس قوم یا گروہ کو پہنچا ہو۔ خواہ وہ کوئی پیغمبر ہو یا کوئی دوسرا بزرگ ہو۔ اور وہ گواہ اس بات کی گواہی دے گا کہ میں نے اللہ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ [١٠٠]بزرگوں کے اقوال اورمکاشفات وغیرہ شرعی دلیل نہیں بن سکتے:۔ اس گواہی کے بعد مجرموں کو موقع دیا جائے گا کہ وہ اس گواہی کے خلاف کوئی عذر پیش کرسکتے ہیں تو کریں اور جب وہ کوئی عذر پیش نہ کرسکیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم اللہ کا پیغام پہنچنے کے بعد بھی جو شرک میں ہی مبتلا رہے تو اس بات کے لئے تمہارے پاس کوئی دلیل ہے؟ اور اگر ہے تو اسے پیش کیوں نہیں کرتے؟ دلیل سے یہاں مراد کسی الٰہامی کتاب یا کتاب و سنت کی دلیل ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی فلاں فلاں قسم کے اختیارات اپنے فلاں بندوں یا فلاں قسم کے بندوں کو تفویض کر رکھے ہیں۔ اس وقت انھیں اپنے سب اجتہادات، استنبا طات اور کج بحثیاں بھول جائیں گی۔ اس لئے کہ شریعت کے واضح احکام کے مقابلہ میں بزرگوں کے اقوال اور مکاشفات کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی۔ نہ ہی ایسی باتیں شرعی دلیل کہلا سکتی ہیں۔