قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
(یا) ان سے یہ پوچھئے : بھلا دیکھو! اگر اللہ قیامت کے دن تک ہمیشہ تم پر دن ہی چڑھائے رکھتا تو اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے۔ جو تمہارے لئے رات لے آتا جس میں [٩٦] تم آرام کرسکتے؟ کیا تم دیکھتے نہیں؟ [٩٧]
[٩٦] دن رات کےنظام سے اللہ کی قدرت کاملہ پردلیل:۔ رات اور دن کے نظام کو اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنے بہت بڑے بڑے قدرت کے کارناموں اور عجائبات میں شمار کیا ہے۔ ایک ظاہربینانسان ان نشانیوں کو روزمرہ کے معمولات سمجھ کر ان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ لیکن جن لوگوں نے اس نظام کا تحقیقی مطالعہ کیا ہے وہ اس نظام کی پیچیدگیوں کو خوب جانتے ہیں۔ یہ تو واضح سی بات ہے کہ دن اور رات کا تعلق سورج سے ہے۔ اختلاف اگر ہے تو اس بات میں رہا ہے کہ آیا ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گردش کرتا ہے یا سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے یا یہ دونوں سیارے ہی محو گردش ہیں۔ اس سلسلہ میں آج تک چار نظریات بدل چکے ہیں۔ دور نبوی میں فلکیات کے ماہرین اورہیئت دانوں کا نظریہ یہ تھا کہ ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے جبکہ آج کا نظریہ (جو چوتھا اور آخری نظریہ) یہ ہے کہ ہماری زمین ایک تو اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ دوسرے یہ اپنے محور پر ٦٦ ڈگری درجے کا زاویہ بنائے ہوئے گھوم رہی ہے تیسرے یہ سورج کے گرد بھی گھوم رہی ہے۔ پھر ہمارا یہ پورا نظام شمسی اپنے سیاروں سمیت اپنے سے کسی بڑے سورج کے گرد چکر لگارہا ہے اور اپنے محور کے گرد بھی چکر لگاتا ہے۔ اور یہ سب سیارے فضائے بسیط میں اس طرح محو گردش ہیں کہ کوئی دوسرے سے ٹکراتا نہیں۔ اپنے فاصلے برقرار رکھتے ہیں اور ان کی رفتار میں نہ کمی آتی ہے یا زیادتی ہوتی ہے۔ اور وہ اپنے اپنے مقام پر پوری طرح جکڑے ہوئے محو گردش ہیں۔ یہ ہے وہ انتہائی پیچیدہ نظام ہے جس سے ہمارا نظام لیل و نہار پیدا ہوتا ہے۔ موسموں میں تبدیلی آتی ہے۔ کبھی دن بڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور کبھی راتیں پھر ان تغیرات کے تمام زمینی مخلوق ہر طرح طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اب موجودہ نظریہ کی رو سے یہ سوال یوں بنتا ہے کہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ زمین کی اس محوری گردش کو روک دے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ زمین کے آدھے حصہ میں ہمیشہ رات ہی طاری رہے اور آدھا حصہ جو سورج کے سامنے ہو اس میں ہمیشہ سورج ہی چڑھا رہے تو بتلاؤ کہ اللہ کے بغیر تمہارا کوئی الٰہ ایسا ہے جو اس زمین کی گردش کو پھر سے چالو کردے اور تمہیں ان تمام مصائب سے بچاسکے جو اس صورت میں تمہیں پہنچ سکتی ہیں؟ رات کو اللہ نے تاریک اور ٹھنڈا بنایا ہے۔ تو جس حصہ میں ہمیشہ رات رہے گی۔ وہاں کے لوگ تو سردی سے ہی مرجائیں گے کام کرنا تو دور کی بات ہے۔ اور جس حصہ میں سورج چمکے گا وہاں کے لوگ سورج کی تپش سے مر جائیں گے۔ آرام کرنا تو دور کی بات ہے اللہ نے ایسا حکیمانہ نظام بنا دیا ہے جو تمام مخلوق کے مصالح پر مبنی ہے۔ [٩٧] اللہ نے رات کے ہمیشہ رہنے کا ذکر کیا تو فرمایا :﴿ أفَلاَ تَسْمَعُوْنَ﴾ اور ہمیشہ دن کے رہنے کا ذکر فرمایا تو فرمایا : ﴿أفَلاَ تُبْصِرُوْنَ﴾ یہ اس لئے دیکھنے کا کام روشنی سے تعلق رکھتا ہے۔ اور تاریکی میں انسان دیکھ تو نہیں سکتا البتہ سن ضرور سکتا ہے۔