وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا ۖ فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَن مِّن بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ
اور کتنی ہی بستیوں کو ہم نے تباہ کردیا جو اپنی معیشت پر [٨٠] اترایا کرتی تھیں۔ سو یہ ہیں ان کے گھر (ویران پڑے ہوئے) ان میں سے چند ہی گھر ہوں گے جو ان کے بعد آباد ہوئے اور آخرہم ہی ان کے وارث ہوئے۔ [٨١]
[٨٠] یہ کفار مکہ کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے یعنی تمہیں خطرہ یہ ہے کہ اگر تم مسلمان ہوگئے تو تمہاری سیاسی برتری اور تمہاری معیشت تباہ ہوجائے گی اور جس معیشت پر اس وقت تم اترا رہے ہو تو جن لوگوں نے تم سے پہلے اپنی معیشت پر گھمنڈ کیا تھا ان کا انجام بھی تمہارے ساتھ ہے۔ ان لوگوں نے اسی گھمنڈ میں آکر تکبر اور سرکشی کی راہ اختیار کی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اس طرح تباہ و برباد کر ڈالا کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہ گیا۔ ان کی بستیوں کے کھنڈرات تم دیکھتے رہتے ہو۔ پھر اگر تم نے بھی انہی لوگوں کی روش اختیار کی تو کیا وجہ ہے کہ تمہارا وہی انجام نہ ہو جو ان کا ہوا تھا۔ [٨١]کفارکے اعتراض کا دوسراجواب ‘معیشت عذاب سے نہیں بچاسکتی :۔ یعنی اپنی معیشت پر اترانے اور اپنا معیار زندگی بلند رکھنے والے لوگ مرکھپ گئے اور ان کی جائیدادیں جن پر وہ گھمنڈ کیا کرتے تھے سب وہیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ان کا کوئی وارث بھی باقی نہ رہا۔ بالآخر ہم ہی ان کے وارث ہوئے کہ جنہیں ہم چاہیں وہاں آباد کرکے وہ جائیدادیں ان کے حوالے کردیں۔