أُولَٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
یہی لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبارہ دیا جائے گا اس ثابت قدمی کے بدلے جو انہوں نے دکھلائی ہے [٧٢] اور برائی کا جواب بھلائی سے [٧٣] دیتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ [٧٤]
[٧٢]اہل کتاب میں سے ایمان لانے والوں کو دوہرا اجر:۔ ثابت قدمی سے مراد ایک تو وہ استقلال ہے جو قبولِ حق کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ ان کے دلوں میں اللہ کی فرمانبرداری کا جو مستقل جذبہ موجود تھا۔ اسی نے اسے اس نبی پر ایمان لانے کی ترغیب دی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مذہب تبدیل کرنے میں اور پھر کسی دین کو ابتداًء قبول کرتے وقت ان مسلمانوں کو طرح طرح کی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مصائب کو بھی انہوں نے صبر و استقلال کے ساتھ برداشت کیا۔ ایسے لوگوں کے لئے دوہرا اجر ہے ایک پہلے نبی کی کتاب پر ایمان لانے کا اور ایک دوسرے نبی اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طرح کے آدمیوں کا ذکر کیا ہے جن کو دوہرا اجر ملے گا ان میں سے ایک وہ یہودی یا نصرانی ہے۔ جو پہلے اپنے پیغمبروں پر ایمان رکھتا تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر مسلمان ہوگیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب فضل من اسلم من اہل الکتابین) [٧٣] یہاں یَدْرَءُ وْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور وَرَءَ کے معنی دفع کرنا، دور کرنا یا پرے ہٹانا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اگر کوئی شخص ان سے برا سلوک کرے یا نقصان پہنچائے تو اس کا جواب برائی یا نقصان سے نہیں دیتے۔ بلکہ اس سے بھی اچھا سلوک کرتے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی برائی ہوجائے تو بعد میں نیک اعمال کرکے اس برائی کے اثر کو دور کردیتے ہیں۔ [٧٤] جب رزق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد ہمیشہ طیب اور پاکیزہ رزق ہوتا ہے کیونکہ حرام کی کمائی سے تو صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا۔ اور خرچ کرنے سے مراد اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرنا ہے اور جائز کاموں میں بھی یعنی اپنی ذات پر اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی وغیرہ پر اور اس معاملہ سے بخل سے کام نہیں لیتے۔