وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
نیز آپ طور کے کنارے پر بھی نہ تھے جب ہم نے (موسیٰ کو)[٦١] ندا کی تھی، لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے (کہ اس نے آپ کو یہ سچی غیب کی خبریں دیں) تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی [٦٢] ڈرانے والا نہیں آیا تھا۔ شاید وہ نصیحت قبول کریں۔
[٦١] یہ تینوں واقعات آپ کی نبوت پردلیل ہیں اور سابقہ کتب کی تحریف کی تصحیح بھی:۔ گویا ان تین واقعات کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے آپ کی نبوت کی صداقت کے طور پر پیش فرمایا۔ ایک وہ وقت جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو معجزات عطا کرکے انھیں فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھیجا اور امر رسالت تفویض کیا تھا۔ دوسرے مدین کے حالات کے تفصیل اور تیسرے وہ وقت جب موسیٰ علیہ السلام راستہ بھول کر آگ لینے کی غرض سے آئے تھے۔ تو ہم نے خود انھیں پکار کر رسالت بھی عطا کی تھی اور ہم کلامی کا شرف بھی بخشا تھا۔ اور یہ واقعات آپ کی نبوت پر دلیل اس طرح ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے۔ کہ آپ نے کسی کتاب سے پڑھ کر یہ حالات معلوم کر لئے ہوں اور لوگوں کو سنا دیا ہو۔ دوسرے یہ کہ آپ کا کوئی استاد ہی نہ تھا جس کے آگے آپ نے زانوے تلمذ تہ کیا ہو اور اس نے آپ کو ان واقعات سے مطلع کردیا ہو۔ اب تیسری صورت یہی باقی رہ جاتی ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہوں اور اللہ نے بذریعہ وحی آپ کو ان حالات سے مطلع کردیا ہو۔ پھر ان سابقہ کتب میں یا موجودہ میں انہی واقعات سے متعلق بے شمار جزوی اختلاف موجود تھے۔ اللہ نے جو حالات آپ کو وحی کے ذریعہ بتلائے یہ حالات اصل حقائق کے ٹھیک مطابق ہیں۔ [٦٢] یعنی اہل حجاز کے لئے اس دو ہزار سال میں کوئی نبی مبعوث نہ ہوا تھا ان لوگوں کا ان واقعات سے متعلق ذریعہ معلومات بسی وہی خبریں تھیں جو ادھر ادھر سے وہ سن لیتے تھے اور ان خبروں میں بھی کافی اختلافات تھے۔ اب ہم نے ان لوگوں میں آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ انھیں صحیح حالات کا علم ہوجائے۔ اور وہ امم سابقہ کے انجام سے متنبہ ہو کر سبق حاصل کریں۔ اور اللہ سے شرک اور سرکشی کی راہ چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں تاکہ ان کا انجام بھی ویسا ہی نہ ہو جیسا کہ مذکور امتوں کا ہوا تھا۔