فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
پھر جب بچی پیدا ہوئی تو کہنے لگی : ’’میرے ہاں [٣٧] تو لڑکی پیدا ہوگئی‘‘ حالانکہ جو کچھ اس نے جنا، اسے اللہ خوب جانتا تھا۔ ’’اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا [٣٨] اب میں نے اس کا نام مریم رکھ دیا ہے اور اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی [٣٩] ہوں‘‘
[٣٧]سیدہ مریم نے کیانذرمانی تھی؟ حضرت مریم کی والدہ نے جو منت مانی تھی وہ اس توقع سے مانی تھی کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔ کیونکہ اس عہد میں لڑکے تو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کئے جاتے تھے۔ مگر لڑکیوں کو وقف کرنے کا رواج نہ تھا۔ مگر ہوا یہ کہ لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی تو انہیں اس بات پر افسوس ہونا ایک فطری امر تھا۔ اس آیت میں محرر کا لفظ آیا ہے۔ جس کا لغوی معنی ’آزاد کردہ‘ ہے یعنی ایسا بچہ جسے والدین نے تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا ہو تاکہ وہ یکسو ہو کر اللہ کی عبادت کرسکے۔ یہود میں دستور تھا کہ وہ اس طرح کے منت مانے ہوئے وقف شدہ بچوں کو بیت المقدس یا ہیکل سلیمانی میں چھوڑ جاتے اور انہیں ہیکل سلیمانی یا عبادت خانہ کے منتظمین جنہیں وہ اپنی زبان میں کاہن کہتے تھے، کے سپرد کر آتے تھے۔ [٣٨] یہ بطور جملہ معترضہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو یہ کہہ کر تسلی دی ہے کہ یہ لڑکی لڑکے سے بدرجہا افضل ہے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی لڑکا اس لڑکی کے جوڑ کا نہیں۔ لہٰذا افسوس کرنے کی کوئی بات نہیں۔ [٣٩] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے تو وہ چلا کر رونے لگتا ہے۔ صرف مریم اور اس کے بیٹے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو شیطان نے نہیں چھوا۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) اس حدیث سے حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں کی فضیلت ثابت ہوئی۔ نیز یہ کہ حضرت مریم علیہا السلام کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا۔