قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ ۖ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ۚ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
شعیب نے کہا (موسیٰ)! میں چاہتا ہوں کہ اپنی [٣٧] دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا تجھ سے اس شرط پر نکاح کر دوں کہ تم میرے ہاں آٹھ برس ملازمت کرو۔ اور اگر دس سال پورے کردو تو تمہاری مہربانی۔ میں اس معاملہ میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔ انشاء اللہ! تم مجھے ایک خوش معاملہ آدمی پاؤ گے
[٣٧]لڑکی سے نکاح کی شرط: باپ نے بھی لڑکیوں کی اس رائے سے اتفاق کرلیا۔ مگر اب مشکل یہ تھی کہ گھر میں اتنی آسودگی تو تھی نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کو کچھ ماہوار تنخواہ پر ملازم رکھا جاسکتا۔ اور اس سے بھی بڑی مشکل یہ تھی کہ گھر میں ایک نوجوان کو کیسے ملازم رکھا جاسکتا ہے جبکہ گھر میں دو نوجوان لڑکیاں بھی موجود ہوں۔ لڑکیوں سے باہمی مشورہ کے بعد ایک دن موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اور آپ نکاح کے بعد میرے ہی پاس رہ کر گھر کا سارا کام کاج سنبھال لیں۔ اور نکاح کے بعد کم از کم آٹھ سال تو ضرور میرے پاس رہیں۔ اور اگر یہ مدت آٹھ سال سے بڑھا کر دس سال کردیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔ میری طرف سے اس زائد مدت کے لئے پابندی نہ ہوگی۔ اور میں ان شاء اللہ اس معاملہ کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کی کوشش کروں گا اور کوئی سخت خدمت تم سے نہ لوں گا۔ اور نہ کسی طرح کی سختی تم مجھ میں دیکھو گے۔ آیاآٹھ سال کی خدمت بطور حق مہرتھی ؟ اس مقام پر بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آیا ایک باپ اپنی لڑکی کے حق مہر کے عوض خود معاوضہ لے سکتا ہے یا نہیں؟ ہمارے خیال میں یہ سوال خلط مبحث ہے۔ یہاں معاملہ ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک نکاح کا معاملہ۔ دوسرے نکاح کے بعد گھر کا کام سنبھالنے کا معاملہ۔ یعنی شعیب علیہ السلام نے شرط صرف یہ لگائی تھی کہ نکاح کے بعد تم اپنی بیوی کو لے کر چلے نہیں بنو گے۔ بلکہ تم کم از کم آٹھ سال میرے ہاں ہی قیام پذیر رہو گے۔ اس وقت یہ گھر جیسے میرا ہے ویسے ہی تمہارا بھی ہوگا۔ یہ سوال صرف اس صورت میں اٹھایا جاسکتا تھا جب آٹھ یا دس سال کی مدت گزرنے کے بعد شعیب علیہ السلام اپنی لڑکی کا نکاح موسیٰ علیہ السلام سے کرتے۔ آپ کی مجبوری ہی یہ تھی کہ لڑکیوں والے گھر میں ایک اجنبی آدمی کیسے رہ سکتا ہے۔ لہٰذا جلد از جلد اس کا نکاح کرکے اسے گھر میں رکھا جاسکے۔ رہا نکاح کے مہر کا مسئلہ تو وہ تھوڑے سے تھوڑا بھی ہوسکتا ہے۔ حتیٰ کہ لوہے کی ایک انگوٹھی بھی اور اتنا حق مہر ایک پردیسی بھی ادا کرسکتا ہے۔