قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ
ان میں سے ایک بولی، اباجان! اسے اپنا نوکر رکھ لیجئے۔ بہترین آدمی جسے آپ نوکر رکھنا چاہیں وہی ہوسکتا ہے جو طاقتور اور امین ہو۔ [٣٦]
[٣٦]سیدناموسیٰ علیہ السلام کو ملازم رکھنے کی سفارش:۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا کوئی لڑکا نہ تھا۔ بس دو لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں جنہیں اندر اور باہر دونوں طرف کے کام کرنا پڑتے تھے۔ لہٰذا شعیب علیہ السلام پہلے اس جستجو میں تھے کہ کوئی شریف آدمی مل جائے تو اسے ملازم رکھ لیا جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چند روزہ قیام میں ہی گھر کے سب افراد نے حضرت موسیٰ کے متعلق یہ رائے قائم کرکے اس پر اتفاق کرلیا کہ اگر یہی پردیسی نوجوان ہمارے ہاں رہنا قبول کرلیں تو یہ بہت مناسب رہے گا۔ چنانچہ ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ اگر آپ کوئی آدمی ملازم رکھنا ہی چاہتے ہیں تو شاید اس سے بہتر آپ کو کوئی آدمی نہ مل سکے۔ کیونکہ یہ شخص نوجوان ہے اور طاقتور ہے۔ ہلکے اور بھاری سب کام کرسکتا ہے۔ دوسرے یہ امین بھی ہے۔ اور یہ باتیں اس لڑکی نے اپنے مشاہدہ کی بنا پر کہی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اکیلے وہ ڈول کنوئیں سے کھینچ لیا تھا۔ جسے دو آدمی بمشکل کھینچتے تھے۔ پھر وہ لڑکی جب انھیں گھر لانے کے لئے گئی تھی۔ تو اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کس قدر باحیا، دیانت دار، خدا ترس اور امین آدمی ہے۔ ملازمت کی ضروری شرائط:۔ ضمناً اس آیت یہ بھی معلوم ہوا کہ ملازمت کے لئے دو باتوں کو دیکھنا ضروری ہے ایک یہ کہ جس کام کے لئے کوئی شخص ملازم رکھا جارہا ہے۔ وہ اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ بالفاظ دیگر اس کام کا اسے پہلے سے کچھ علم اور تجربہ ہے؟ اور اگر کوئی محنت والا کام ہے تو کیا اس کی جسمانی حالت اور قوت اتنی ہے کہ وہ اس کام کو بجا لاسکے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ دیانتدار اور امین ہو۔ اور یہ دیانت و امانت دین سے بیزار اور خدا فراموش آدمیوں میں کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ ان شرائط کو نظر انداز کرنےکےمفاسد:۔ اب تعجب کی بات یہ ہے کہ جب کسی شخص نے کوئی نجی یا گھریلو ملازم رکھنا ہو تو وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھتا ہے تو سرکاری ملازمتوں کے وقت صرف شرط اول یعنی اہلیت کو تو ملحوظ رکھا جاتا ہے لیکن دوسری شرط کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اور غالباً اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ملازم رکھنے والے افسروں میں بھی یہ دوسری شرط مفقود ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رشوت عام ہوجاتی ہے۔ جس کا تعلق ملازمین سے ہی ہوتا ہے۔ لوگوں کے حقوق غصب اور تلف ہوتے ہیں۔ ظالمانہ قسم کی حکومت قائم ہوجاتی ہے اور عوام کے لئے اتنی شکایات اور مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کا حل ناممکن ہوجاتا ہے۔ اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ شرائط ملازمت میں سے دوری شرط دیانت و امانت کو درخور اعتناء سمجھا ہی نہیں جاتا۔