وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
(اے پیغمبر) جو لوگ ایمان [٣٠] لائیں اور اچھے کام کریں انہیں خوشخبری دے دیجئے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جب بھی انہیں کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے ’’یہ تو وہی پھل ہیں جو ہمیں اس سے پہلے (دنیا میں) دیئے جا چکے ہیں۔‘‘ کیونکہ جو پھل انہیں دیا جائے گا وہ شکل و صورت [٣١] میں دنیا کے پھل سے ملتا جلتا ہوگا۔ نیز ان (ایمان والوں) کے لیے وہاں پاک و صاف [٣٢] بیویاں (بھی) ہوں گی۔ اور وہ ان باغات میں ہمیشہ قیام پذیر رہیں گے
[٣٠] قرآن کریم میں آپ اکثر یہ بات ملاحظہ کریں گے کہ جہاں کہیں کفار اور ان کی وعید کا ذکر آتا ہے وہاں ساتھ ہی مومنوں اور ان کی جزا کا ذکر بھی ساتھ ہی کردیا جاتا ہے اور اس کے برعکس بھی یہی صورت ہوتی ہے، کیونکہ انسان کی ہدایت کے لیے ترغیب اور ترہیب دونوں باتیں ضروری ہیں۔ [٣١] یعنی شکل و صورت دیکھ کر وہ یہ تو کہہ دیں گے کہ یہ آم ہے یا انگور یا انار ہے مگر ان کا ذائقہ بالکل الگ اور اعلیٰ درجہ کا ہوگا اور ان کا سائز بھی دنیا کے پھلوں کی نسبت بہت بڑا ہوگا۔ [٣٢] جنتی لوگ سب کے سب خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بول و براز اور رینٹ وغیرہ نیز اخلاق رذیلہ سے پاک صاف ہوں گے اور ان کی بیویاں حیض و نفاس کی نجاستوں سے بھی پاک و صاف ہوں گی۔