وَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ
اور (اس واقعہ کے بعد) ایک شخص شہر کے پرلے کنارے سے دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا : ’’موسیٰ ! اہل دربار تیرے متعلق [٣٠] مشورہ کر رہے ہیں کہ تمہیں قتل کر ڈالیں لہٰذا یہاں سے نکل جاؤ۔ میں یقیناً تمہارا خیرخواہ ہوں‘‘
[٣٠]سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو قتل کےمشورہ کی اطلاع ملنااور مدین کی طرف روانگی :۔ فرعون کے درباریوں کو اب اس امر میں کچھ شبہ نہ رہا تھا کہ موسیٰ شاہی خاندان کا فرد ہونے کے باوجود بنی اسرائیل کا ساتھ دیتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے باہمی مشورے کے بعد یہی طے کیا کہ موسیٰ کو قتل کردیا جائے۔ درباریوں میں سے ہی ایک آدمی حضرت موسیٰ کا دل سے خیر خواہ تھا۔ وہ فوراً وہاں سے اٹھا اور دوڑتا ہوا موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا اور کہا : جتنی جلدی ہو سکے اس شہر سے نکل جاؤ کیونکہ تمہارے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں اور میں صرف اس خیال سے بھاگ کر یہاں پہنچا ہوں کہ تمہیں بروقت صحیح صورت حال سے مطلع کردوں۔ لہٰذا دیر نہ کرو اور فوراً یہاں سے کہیں دور چلے جاؤ۔