فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن يَبْطِشَ بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا قَالَ يَا مُوسَىٰ أَتُرِيدُ أَن تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ ۖ إِن تُرِيدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ
پھر جب موسیٰ نے ارادہ کیا کہ دشمن قوم کے آدمی پر حملہ کرے تو وہ پکار اٹھا : موسیٰ ! کیا تم مجھے بھی مار دالنا چاہتے ہو۔ جسے کل تم نے ایک آدمی کو [٢٩] مار ڈالا تھا ؟ تم تو ملک میں جبار بن کر رہنا چاہتے ہو۔ اصلاح نہیں کرنا چاہتے۔
[٢٩] قبطی کے قاتل کا راز فاش ہونا:۔ سبطی کو اس طرح ملامت کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ قبطی کو پکڑ کر اس سبطی کو اس سے نجات دلائیں۔ مگر سبطی یہ سمجھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے چونکہ آج مجھے ہی ملامت کی ہے۔ لہٰذا مجھی پر ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا وہ فوراً بک اٹھا اور کہنے لگا کہ موسیٰ کیا تم مجھے اسی طرح موت کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہو جس طرح کل تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان جھگڑے کی صورت میں کسی نہ کسی کو مار ڈالنا ہی جانتے ہو۔ ان کا مقدمہ سن کر ان میں صلح یا سمجھوتہ کرانا نہیں جانتے۔ قبطی نے جب سبطی کے منہ سے یہ بات سنی تو اس نے لڑائی جھگڑا تو وہیں چھوڑا اور ایک دم بھاگ کر فرعون اور اس کے اہلکاروں کو یہ اطلاع دے دی کہ کل جو قبطی قتل ہوا ہے اس کا قاتل موسیٰ ہے۔ گویا جس راز پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ اسے اسی احمق سبطی نے فاش کر ڈالا جس کی حمایت میں آپ نے قبطی کو مارا تھا۔ جب فرعون کے اہلکاروں کو قتل کے مجرم کا پتا چل گیا تو موسیٰ علیہ السلام کی گرفتار کا حکم صادر ہوگیا۔