فَرَدَدْنَاهُ إِلَىٰ أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
چنانچہ (اس طرح) ہم نے موسیٰ کو اس کی والدہ ہی کی طرف لوٹا دیا تاکہ وہ [١٩] اپنی آنکھ ٹھنڈی کرے اور غمزدہ نہ رہے اور یہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ اکثر لوگ [٢٠] یہ بات نہیں جانتے۔
[١٩] سیدناموسیٰ علیہ السلام کی اپنی ماں کے پاس واپسی:۔ ام موسیٰ کو وہاں محل میں رہ کر بچہ کی پرورش کے لئے کہا گیا تو اس نے یہ عذر پیش کردیا کہ گھر کی دیکھ بھال بھی اس کے ذمہ ہے۔ لہٰذا یہ یہاں رہ کر یہ خدمت سرانجام نہیں دے سکتی۔ البتہ یہ کرسکتی ہوں کہ اس بچے کو اپنے ہمراہ لے جاؤں اور اس کی پرورش کروں۔ چنانچہ آل فرعون نے ام موسیٰ کا یہ عذر قبول کرلیا وہ بچہ کو اپنے گھر لے آئی۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف آغوش مادری میں ہی نہ پہنچے بلکہ اپنے گھر میں ہی واپس آگئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ام موسیٰ سے جو وعدہ کیا تھا۔ وہ بھی پورا ہوا اور شاہی خزانہ سے جو ماں کو معاوضہ ملتا رہا وہ اللہ تعالیٰ کا زائد انعام تھا۔ [٢٠]آپ کی ذات پردیندارانہ ماحول کا اثر:۔ یعنی اللہ کے کئے ہوئے وعدے بہرحال پورے ہوکے رہتے ہیں۔ خواہ ان کے امکانات بالکل معدوم نظر آرہے ہوں۔ یا یہ کہ اگر لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ ظاہری اسباب کے علاوہ کچھ باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں جو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں اور اکثر لوگ یہ نہیں جان سکتے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کون کون سے راستے اور کون کون سے مراحل طے کرتے ہوئے پورے ہوتے ہیں۔