وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
اور فرعون کی بیوی فرعون سے کہنے لگی : یہ بچہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، [١٤] اسے قتل نہ کرو، کیا عجیب کہ یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ (اس کے انجام سے) بے خبر [١٥] تھے۔
[١٤]اپنی بیوی کی درخواست پر فرعون کاسیدناموسیٰ کو جہنمی بنانااور پرورش کرنا:۔ اب ظاہری قیاس سے تو یہی معلوم ہو رہا تھا کہ یہ بچہ کسی بنی اسرائیل کے فرد کا ہی ہوسکتا ہے جس نے بچہ کے قتل کے خطرہ کی وجہ سے اس کے قتل ہونے سے بہتر یہی سمجھا کہ اسے دریا کے سپرد کردیا جائے۔ اس لحاظ سے فرعون کو یہ بچہ فوراً مار ڈالنا چاہئے تھا۔ مگر بچے کی صورت ایسی پیاری اور پرکشش تھی کہ فرعون کی بیوی آسیہ، جس کے متعلق قرآن نے ایک دوسرے مقام پر تصریح کردی ہے کہ وہ فرعون کے ایسے ظالمانہ کاموں سے سخت بیزار تھی، نے جب یہ بچہ دیکھا تو فوراً اس کا دل محبت سے بھر آیا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے ہاں اولاد نہ تھی۔ چنانچہ وہ فوراً کہنے لگی کہ یہ بچہ تو بہت پیارا ہے کہ جسے دیکھ کر ہی دل خوش ہوجاتا ہے اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ لہٰذا ہم خود اس کی تربیت کریں گے۔ اسے قتل کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ پھر یہ بچہ ہمارے لئے مفید بھی ہوسکتا ہے۔ جب اس کی پرورش کریں گے تو یہ ہمارا ہی بچہ ہے۔ اسے کیا خبر ہوسکتی ہے کہ اس کا بنی اسرائیل کے کسی فرد سے بھی کچھ تعلق ہے۔ اگر ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے تو اس کی ساری اہلیتیں بنی اسرائیل کے بجائے ہمارے کام آسکتی ہیں۔ لہٰذا اسے متبنّیٰ بنا لینے میں ہمیں بہت سے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ [١٥]تدبیر کندبندہ تقدیرکندخندہ:۔ یعنی ان دونوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ جو باتیں وہ کر رہے ہیں وہ خود نہیں کر رہے بلکہ مشیت الٰہی ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلوا رہی ہے۔ یا انھیں کیا خبر تھی کہ جس بچہ کو مارنے کی خاطر انہوں نے ہزارہا بچے قتل کردیئے ہیں یا کر رہے ہیں وہ بچہ ان کے اپنے ہاتھ میں جسے یہ اپنا متبنّیٰ بنانے کے مشورے کر رہے ہیں یا یہ کہ جس بچہ پر اس وقت ان کا اتنا دل بھر آیا ہے۔ وہی ان کا دشمن بن جائے گا۔ اور اسی کے ہاتھوں ان کی اور ان کی حکومت کی تباہی واقع ہوگی۔