إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ
اللہ تعالیٰ نے آدم کو، نوح کو، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام اہل عالم میں [٣٥] سے (رسالت کے لیے) منتخب کیا تھا
[٣٥] ضابطہ نبوت:۔ اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت نصاریٰ کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا جارہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انسان ہی تھے اور آدم ہی کی اولاد سے تھے۔ کوئی مافوق البشر ہستی نہیں تھے۔ پھر بعد میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ان کی پیدائش کن حالات میں ہوئی اور کیسے ہوئی۔ بعدہ ان کی زندگی کے مختصر سے حالات اور پھر عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا اپنے ہاں اٹھا لینے کا ذکر ہے اور ساتھ ہی عیسائیوں کے عقائد باطلہ کی تردید بھی پیش کی جارہی ہے، جس وقت اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اس وقت کی موجودہ کائنات (آسمان و زمین، شمس و قمر، ستارے، جن اور فرشتے وغیرہ) میں فرشتے ہی تمام مخلوق سے افضل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کروایا اور حضرت آدم علیہ السلام کو تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی، پھر انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر ان ہی کی اولاد میں نبی پیدا ہوتے رہے۔ پھر حضرت نوح علیہ السلام کے بعد سلسلہ نبوت حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد سے مختص ہوگیا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام تک چلتا رہا۔ پھر یہ سلسلہ نبوت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے مختص ہوگیا۔ حتیٰ کہ نبی آخرالزمان بھی انہی کی اولاد سے تھے اور آل عمران کا ذکر بالخصوص اس لیے کیا کہ نسب تو مرد کی طرف سے چلتا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیدا ہوئے تھے۔ البتہ ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام عمران ہی کے خاندان سے تھیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو منسوب بھی ان کی والدہ مریم ہی کی طرف کیا ہے۔ یہ عمران حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے والد کا نام ہے۔ انہی کی اولاد سے حضرت مریم علیہا السلام تھیں اور اس سورت کا نام آل عمران بھی اسی نسبت سے ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا نام بھی عمران ہو، جیسا کہ آیت کے الفاظ ﴿قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ ﴾ سے ہوتا ہے۔