مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا وَهُم مِّن فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ
جو شخص اس دن بھلائی [٩٨] لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر بدلہ ملے گا اور ایسے ہی لوگ اس دن گھبراہٹ [٩٩] سے امن میں ہوں گے۔
[٩٨] یہاں بھلائی سے مراد ایمان اور اعمال صالحہ ہیں۔ جزا یعنی نیک اعمال کے اچھے بدلہ کے متعلق اللہ کا عام ضابطہ یا قانون یہ ہے کہ ہر نیکی کے عوض دس گنا زیادہ اجر عطا فرمائے اور یہ اس کا اپنے نیک بندوں پر فضل اور احسان ہوگا۔ (٦: ١٦) پھر اگر کوئی عمل انتہائی خلوص اور محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر بجا لایا گیا ہوگا اور بعد میں اس کی نگہداشت بھی کی گئی ہوگی تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ سات سو گناہ یا اس سے زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ (٢: ٢٦١) [٩٩] ایمانداروں پر گھبراہٹ طاری نہ ہونے کی دو وجہیں ہوں گی ایک یہ کہ جو کچھ اس دن ہوگا ان کی توقع اور ان کے ایمان کے مطابق ہوگا اور جس حادثہ کی انسان کو پہلے سے خبر ہو وہ اس سے بچاؤ تو کرلیتا ہے مگر اس سے گھبراتا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ ان کی توقع سے بڑھ کر مل رہا ہوگا۔ اس لحاظ سے یہ ان کے گھبرانے کا نہیں بلکہ خوشی کا موقع ہوگا۔