وَيَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّهُ ۚ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ
اور جس دن صور پھونکا [٩٢] جائے گا تو جو کوئی بھی آسمانوں میں یا زمین میں ہوگا سب گھبرا اٹھیں گے بجز ان کے جنہیں اللہ اس ہول [٩٣] سے بچانا چاہے گا۔ اور یہ سب حقیر [٩٤] بن کر اللہ کے حضور پیش ہوجائیں گے۔
[٩٢] معتبر روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نفخہ صور دوبارہ ہوگا۔ پہلی بار جب حضرت اسرافیل صور میں پھونکیں گے تو قیامت برپا ہوجائے گی اور تمام دنیا تباہ و برباد ہوجائے گی۔ یہ نظام کائنات بھی درہم برہم ہوجائے گا اور دوسری بار جب صور پھونکا جائے گا تو تمام مردے اپنی اپنی قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ مزید تفصیل سورۃ انعام کی آیت نمبر ٧٣ کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔ [٩٣] یہ ایماندار لوگ ہوں گے یا فرشتے مثلاً اسرائیل، میکائیل، جبرئیل وغیرہم۔ کیونکہ یہ نفخہ صور ان کی توقع کے مطابق ہوگا۔ اس لئے ان پر وہ دہشت طاری نہیں ہوگی جو منکرین حق پر ہوگی۔ یہ غالباً نفخہ ثانی کی بات ہے۔ کیونکہ نفخہ اول کے وقت ایماندار لوگ نہایت قلیل بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ کیونکہ احادیث صحیحہ میں یہ وضاحت آچکی ہے کہ قیامت بدترین لوگوں پر قائم ہوگی۔ اور نیک لوگ قیام قیامت سے پیشتر اٹھا لئے جائیں گے۔ [٩٤] دَخَرَ کالغوی مفہوم :۔ دَخَرَ کے معنی میں عاجزی، ذلت اور حقارت تین باتیں پائی جاتی ہیں اور داخر بمعنی عقل و ہوش کی کم مائیگی کی بنا پر نکو بن کر ذلت کی اطاعت قبول کرلینے والا ہے۔ یعنی ساری کی ساری مخلوق عاجز اور حقیر بن کر اللہ کے حضور پیش ہوجائے گی۔ اپنے آپ کو قصووار سمجھتے ہوئے یوں پیش ہوں گے۔ جیسے کوئی قصور وار غلام اپنے آقا کے سامنے پیش ہوتا ہے۔