إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
بلاشبہ یہ قرآن بنی اسرائیل پر اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جن میں وہ [٨٠] اختلاف رکھتے ہیں
[٨٠]بنی اسرائیل کےباہمی اختلافات کےمتعلق قرآن کی نشاندہی :۔ یہ اختلاف صرف عقائد میں ہی نہیں تھے بلکہ احکام اور قصص میں بھی تھے۔ عقائد کے اختلاف یہ تھے کہ مثلاً یہود ہی کا ایک فرقہ آخرت کا منکر بن گیا تھا۔ پھر ان میں کچھ فرقوں کا آخرت کے متعلق تصور ہی غلط تھا جس کا قرآن نے کئی مواقع پر ذکر فرمایا ہے۔ عیسائیوں میں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف تھے کچھ انھیں اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے کچھ انھیں اللہ ہی سمجھتے تھے۔ کچھ بیٹے کو باپ کی طرح قدیم سمجھتے تھے اور کچھ اسے مخلوق اور حادث قرار دیتے تھے۔ کچھ یہ کہتے تھے کہ اللہ نے اپنے سارے اختیارات اپنے بیٹے کو سونپ دیئے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ تین کا تیسرا ہیں۔ اور احکام میں اختلاف ان کی تحریفات لفظی اور معنی کی بنا پر تھا۔ بہت سی آیتوں کو وہ چھپا جاتے تھے اور بہت سی آیات کی تحریف کرلیتے تھے اور ان کی ایسی حرکات بھی قرآن میں متعدد مقامات پر بالوضاحت مذکور ہیں۔ ان سب اختلافات کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ قرآن نے آکر ان اختلافات کو بیان بھی کیا اور ان میں صحیح راہ بھی متعین فرما دی کہ فلاں مسئلہ میں اصل حقیقت یہ ہے اور فلاں میں حقیقت اتنی ہے۔ یہاں اس آیت کے ذکر کرنے سے مطلب یہ ہے کہ اس وقت جو اختلافات کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان ہیں ان میں بھی قرآن صحیح راستے کی نشان دہی کر رہا ہے۔