قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ رَدِفَ لَكُم بَعْضُ الَّذِي تَسْتَعْجِلُونَ
آپ ان سے کہئے کہ : کیا عجب ہے کہ جس (عذاب) کے جلد آنے کا تم مطالبہ کر رہے ہو اس کا ایک حصہ تمہارے قریب [٧٦] ہی آلگا ہو۔
[٧٦] کافروں کا جلد عذاب لانے کا مطالبہ اس بنا پر نہیں تھا کہ وہ فی الواقع یہ چاہتے تھے کہ ان پر عذاب نازل ہو۔ بلکہ اس سے ان کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کے ان وعدوں کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ تو آپ انھیں کہہ دیجئے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایسے عذاب کا کچھ حصہ عنقریب تمہیں اپنی گرفت میں لے لے۔ عذاب کے اس کچھ حصے کا آغاز تو جنگ بدر سے ہی ہوگیا تھا۔ پھر آپ کی زندگی میں ہی اس کچھ حصے کی کئی اقساط سے ان کافروں کو سابقہ پیش آتا رہا۔ اور اس عذاب کا زیادہ حصہ بلکہ اصل عذاب تو انھیں آخرت میں بھگتنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ اس آیت میں عسی کا لفظ ان معنوں میں نہیں کہ شاید تم پر عذاب آجائے نہ آئے بلکہ یہ شاہانہ انداز کلام ہے اور بڑے لوگ جب اس انداز سے خطاب کریں۔ تو وہ بات یقینی ہی سمجھی جاتی ہے اور اگر ایسا کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو پھر اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور فعل میں کچھ فرق نہیں۔ ارادہ تو دور کی بات ہے اللہ تعالیٰ تو جو کچھ چاہے وہ بھی ہوکے رہتا ہے۔