وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا ۖ فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِينَ
پھر ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش برسائی۔ کیسی بری تھی یہ بارش [٥٦] جو ان لوگوں پر ہوئی جنہیں ( عذاب الٰہی سے) ڈرایا گیا تھا۔
[٥٦] لوط علیہ السلام کا قصہ اور اس قوم پر عذاب کی تفصیل پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے مثلاً سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٨٣، ٨٤، سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٧٠، سورۃ ہود کی آیت نمبر ٨٣، سورۃ حجر کی آیت نمبر ٧٣۔ وہاں سے حواشی ملاحظہ کر لئے جائیں۔ اس سورۃ میں تین انبیاء حضرت سلیمان، حضرت صالح اور حضرت لوط علیہم السلام کے حالات کا ذکر ہوا ہے۔ اور ان کے حالات میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات میں کوئی نہ کوئی مشابہت کا پہلو ضرور پایا جاتا ہے۔ مثلاً حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو یہ چیلنج کیا تھا کہ اگر تم مطیع فرمان بن کر حاضر ہوجاؤ تو بہتر ورنہ ہم ایسے لشکر سے تم پر حملہ کریں گے جس کے مقابلہ کی تم تاب نہ لاسکو گے۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرکین مکہ پر ایسا ہی لشکر لائے تھے۔ جس کے مقابلہ کی ان میں تاب نہ تھی۔ حضرت صالح کو ان کی قوم نے بلوا کی صورت میں شبخون مار کر قتل کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ نے انھیں نجات دی۔ قریش مکہ نے بھی آپ سے یہی سلوک کرنا چاہا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی اس سازش سے بال بال بچالیا۔ حضرت لوط علیہ السلام کو ان کی قوم نے شہر سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں۔ جبکہ قریش مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عملاً شہر مکہ سے نکل جانے پر مجبور کردیا تھا۔