قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ ۚ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ ۖ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ
وہ کہنے لگے ہم تو تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں [٤٧] ( صالح نے) کہا : ’’تمہاری نحوست تو اللہ کے پاس ہے بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) تم لوگ آزمائش [٤٨] میں پڑے ہوئے ہو‘‘
[٤٧] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جب سے تم نے اپنی نبوت کا ڈھونگ رچایا ہے۔ اس وقت سے ہم پر کوئی نہ کوئی افتاد پڑی ہی رہتی ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہم سب ایک ہی قوم تھے۔ تم نے آکر ہم میں پھوٹ ڈال دی۔ اور ہماری زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ یہ سب تمہاری ہی نحوست ہے اور یہی اعتراض کفار مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تھا۔ [٤٨] اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تم پر جو وقتاً فوقتاً کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو یہ تمہاری تنبیہ کے لئے آتی ہے اور تمہیں سنبھلنے کے لئے کچھ مزید مہلت دی جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ قوم کے جو دو فریق بن چکے ہیں تو اسی بات میں تمہاری آزمائش ہو رہی ہے تم حق کا ساتھ دیتے ہو یا باطل کا اور اگر باطل کا ساتھ دیتے ہو تو اس میں کس حد تک سرگرمیاں دکھاتے ہو۔