قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ۖ وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ
(ملکہ) کہنے لگی : بادشاہ لوگ جب کسی علاقہ میں داخل ہوتے ہیں تو اسے اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے معززین کو ذلیل [٣١] بنا دیتے ہیں اور یہی کچھ یہ لوگ بھی کریں گے۔
[٣١]ملکہ کا اپنےخدشات سےدرباریوں کومطلع کرنا:۔ خط کے انداز خطاب سے ملکہ کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ سلیمان علیہ السلام عام فرمانرواؤں کی طرح نہیں بلکہ ان کی پشت پر کوئی غیر معمول طاقت ہے اور یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ اگر ملکہ اور اس کے کار پرداز مطیع فرمان بن کر سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر نہ ہوئے تو حضرت سلیمان ان کی سرکوبی کے لئے ضرور ان پر چڑھائی کریں گے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام یہ تو گوارا کرسکتے تھے کہ یہ لوگ سورج پرستی چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں تو ان سے کچھ تعرض نہ کیا جائے۔ مگر یہ گوارا نہ کرسکتے تھے کہ ان کے پاس اسباب و وسائل موجود ہونے کے باوجود ان کے قرب و جوار میں اس طرح علانیہ ملکی سطح پر شرک اور سورج پرستی ہوتی رہے۔ لہٰذا ملکہ کے خطرات کچھ موہوم خطرات نہ تھے۔ اس نے ٹھیک اندازہ کرلیا تھا کہ ایک تو حضرت سلیمان علیہ السلام ان کی سرتابی کی صورت میں ضرور ان پر چڑھائی کریں گے اور دوسرے اس نے یہ بھی اندازہ کرلیا تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکروں کے مقابلہ میں ان میں مقابلہ کی تاب نہیں ہے۔ لہٰذا اس نے سرتابی یا خاموشی کے انجام سے اپنے مشیروں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اکثر یوں ہی ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی بادشاہ کسی ملک کو فتح کرتا ہے تو سب سے پہلے اس ملک کے وسائل معاش پر قبضہ کرکے اس ملک کو مفلس و قلاش بنا دیتا ہے۔ پھر وہاں کے سر کردہ لوگوں کو کچل کر ان کا زور ختم کردیتا ہے تاکہ وہ دوبارہ کبھی اس کے مقابلہ کی بات بھی نہ سوچ سکے۔ اس طرح وہ اس مفتوحہ ملک کے تمام سیاسی، تمدنی اور معاشی وسائل پر قبضہ کرکے اس ملک کی طاقت کو عملاً ختم کرکے اپنی طاقت میں اضافہ کرلیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکابرین مملکت یا تو موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں یا پھر انھیں ذلیل و رسوا ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت عام ہوتا ہے اور بسا اوقات شہروں کو آگ لگا دی جاتی ہے اور عام حالات میں ایسے ہی نتائج متوقع ہیں۔