سورة النمل - آیت 33

قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ فَانظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(درباری) کہنے لگے ’’ہم بڑے طاقتور اور سخت جنگ جو ہیں مگر معاملہ کا اختیار [٣٠] تو آپ ہی کو ہے۔ آپ خود ہی غور کریں کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتی ہیں؟‘‘

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٠] ملکہ کے مشیروں اور درباری لوگوں نے وہی جواب دیا جو عام طور پر درباری لوگ دیا کرتے ہیں۔ نہ وہ اپنے ذہن پر بار ڈال کر کوئی دانشمندانہ جواب دینے کے عادی ہوتے ہیں اور نہ وہ اپنے سر کوئی ذمہ داری لینا چاہتے ہیں۔ وہ صرف جی حضور کہنا اور اپنے آپ کو حکم کے بندے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہی کچھ ان لوگوں نے بھی کیا۔ کہ ہماری خدمات حاضر ہیں۔ ہم زور آور بھی اور لڑائی کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ تاہم یہ فیصلہ کرنا کہ سلیمان سے جنگ کرنی چاہئے یا مطیع فرمان بن جانا چاہئے۔ آپ ہی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ گویا ملکہ کو اپنے مشیروں سے مشورہ کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہ ہوا ماسوائے اس کے کہ اگر ملکہ مقابلہ کا ارادہ رکھتی ہو تو انہوں نے اپنی وفاداریوں کا اسے یقین دلا دیا۔ البتہ اس سے یہ بات ضمناً معلوم ہوجاتی ہے کہ سبا میں اگرچہ شاہی نظام رائج تھا تاہم یہ استبدادی نظام نہ تھا۔ بلکہ فرمانروا اہم معاملات میں اپنے مشیروں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے تھے۔