ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۖ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں (ان کا عقیدہ بن چکا ہے) کہ ماسوائے گنتی کے چند ایام دوزخ کی آگ انہیں ہرگز نہ چھوئے گی [٢٨] اور اپنے دین میں ان کی خود ساختہ باتوں نے انہیں دھوکہ میں مبتلا کر رکھا ہے
[٢٨] یہود کانجات اخروی کےلیےصرف خواہشات پر انحصار اور سستی جنات کےعقیدے :۔اس آیت میں یہود کے کتاب اللہ میں تحریف اور دوسرے بہت سے کبیرہ گناہوں پر دلیر ہونے کی وجہ بیان کی گئی ہے ان کے اسلاف نے اپنی طرف سے ایک عقیدہ گھڑا اور اسے اپنی ساری قوم میں پھیلا دیا۔ وہ عقیدہ یہ تھا کہ یہود جہنم میں نہیں جائیں گے۔ دوزخ کی آگ ان پر حرام کردی گئی ہے وہ اگر دوزخ میں گئے بھی تو صرف اتنے ہی دن دوزخ میں رہیں گے جتنے دن انہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی۔ دوسری بات جو ان میں بطور عقیدہ رواج پا گئی تھی وہ یہ تھی کہ وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں کیونکہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ یعقوب علیہ السلام سے وعدہ کرچکا ہے کہ ان کی اولاد کو سزا نہ دے گا مگر یونہی برائے نام قسم کھانے کو، اسی طرح نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا مسئلہ وضع کر رکھا ہے۔ جس کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی امت کے گناہوں کے کفارہ کے طور پر سولی پر چڑھے اور اپنی امت کے گناہوں اور معصیت کا سارا حساب بیباق کردیا۔ پھر مسلمان بھی اس سلسلہ میں پیچھے نہیں رہے ان میں کچھ سید ہیں یا سید بنے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے متعلق یہ مشہور کر رکھا ہے کہ ان کی پشت پاک ہے۔ لہٰذا انہیں آگ کا عذاب نہ ہوگا۔ کچھ لوگوں نے دنیا میں ہی بہشتی دروازے بنا رکھے ہیں کہ جو کوئی ان کے نیچے سے گزر گیا وہ ضرور بہشت میں جائے گا اور کچھ لوگ اپنے مشائخ اور پیروں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں، وہ ان کی شفاعت کرکے انہیں اللہ کی گرفت سے بچا لیں گے وغیرہ وغیرہ ( اللھم انا نعوذ بک من شرور انفسنا)