أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ
کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر غور نہیں کیا جنہیں کتاب (تورات) کے علم سے کچھ حصہ ملا ہے۔ انہیں اللہ کی کتاب (تورات) کی طرف بلایا جاتا ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے تو ان کا ایک گروہ منہ پھیر لیتا ہے اور وہ (کتاب کے فیصلہ سے) [٢٧] اعراض کرنے لگتے ہیں
[٢٧]علماء یہود کاکتاب اللہ کےمطابق فیصلہ کرنے سے گریز کرنا:۔ اس آیت میں ﴿ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ﴾ سے مراد یہود کے وہ علماء ہیں جو تورات کا کچھ نہ کچھ علم رکھتے تھے۔ لیکن علم کے باوجود کتاب اللہ کے احکام میں تحریف ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ تورات میں شادی شدہ زانی مرد اور عورت کے لیے واضح طور پر رجم کا حکم موجود تھا۔ پہلے تو ان علماء نے یہ کام کیا کہ جب کوئی شریف اور مالدار یا معزز آدمی زنا کا مرتکب ہوتا تو مختلف شرعی حیلوں سے اس کی سزا کو ساقط کردیتے اور کمزور آدمیوں پر حد جاری کرتے۔ بعد میں انہوں نے سب طرح کے لوگوں کے لیے ایک درمیانی راہ نکالی اور طے یہ کیا کہ زانی کی سزا ہی ایسی ہی مقرر کی جائے جو سب کے لیے یکساں ہو اور وہ سزا یہ تھی کہ زانی مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، اس کا منہ کالا کرکے گدھے پر سوار کرکے اسے بستی کے گرد پھرایا جائے۔ ایک دفعہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ واقعہ ہوا کہ ایک مالدار یہودی نے ایک یہودن سے زنا کیا۔ یہ دونوں شادی شدہ تھے۔ ان کا مقدمہ عدالت نبوی میں پیش ہوا۔ ان کی غرض یہ تھی کہ شاید اس طرح یہ زانی رجم سے بچ جائیں گے۔ آپ نے یہود کے علماء سے پوچھا : تم اللہ کی کتاب میں ایسے لوگوں کے لیے کیا سزا پاتے ہو؟ وہ فوراً کہنے لگے کہ ہم تو ان کا منہ کالا کرکے انہیں گدھے پر سوار کرکے پھراتے ہیں۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے (جو یہود کے علماء میں سے تھے اور اسلام لاچکے تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں۔ انہیں کہئے کہ اللہ کی کتاب لاؤ۔ چنانچہ تورات لائی گئی۔ پڑھنے والے نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر اسے چھپا دیا اور آگے پیچھے سے پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے کہنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ہاتھ اٹھانے کو کہا تو نیچے رجم کی آیت تھی۔ اس طرح جب ان علماء کی چوری پکڑی گئی تو از راہ ندامت وہاں سے اٹھ کر چلتے بنے۔ اس آیت میں ایسے ہی یہودی علماء کا کردار بیان ہوا ہے۔ اب مقدمہ کا فیصلہ ابھی باقی تھا۔ چنانچہ آپ نے اس یہودی اور یہودن کو سنگسار کروا دیا۔ یہ واقعہ متعدد صحیح احادیث میں مذکور ہے۔